“شراسمنٹ”
شرمین عبید چنائے نے کئی دن زبان بند اور دماغ کھلا رکھنے کے بعد بیان دیا ہے کہ ان کی ٹویٹ میں مذکورہ ڈاکٹر ان کی بہن کا انتہائی ذاتی نوعیت کے ایمرجنسی چیک اپ کے بعد نہ صرف فرینڈ ریکویسٹ بھیجنے کا ارتکاب کر بیٹھا بلکہ ان کی پوسٹس اور تصاویر بھی لائیک کرتا رہا۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ادنی درجے کا فیس بک صارف بھی جانتا ہے کہ پوسٹ یا تصاویر پبلک یا حلقہ احباب کے لیے کھلی ہو تبھی ان پہ ردعمل دینا ممکن ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں پوسٹ اوپن ہونے کا مطلب یہی ہے کہ آپ کی جانب سے ردعمل (بطور لائیک یا کمنٹ) دینے کی مکمل اجازت ہے۔
دوسری مشکوک بات جو شرمین کی اپنی ٹویٹ اور بیانات سے واضح ہے وہ یہ کہ دوپہر بارہ بجے کے قریب کی جانے والی ٹویٹ میں گزشتہ رات ہونے والے واقعے کا ذکر تھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر گزشتہ رات شرمین کی بہن ہسپتال گئیں تو صبح تک ڈاکٹر موصوفہ کو فرینڈ ریکویسٹ بھیجنے کے بعد محض ان کی تصاویر ہی لائیک کرتا رہا؟ اگر ایسا ہوا تو کوئی ثبوت؟ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا اسے “پیچھے پڑ جانا” کے زمرے میں ڈالا جاسکتا ہے؟
“مشتری ہوشیار باش”
جملہ بلاگران، صحافیان و دیگر باغیان من الآمریت کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ مستقبل قریب و بعید میں نامعلوم افراد کی ہمشیرہ، عزت مآب “اسٹیبلشمنٹ” کو چھیڑنے کی کوشش کا جواب ایسے مقام پہ چھترول کی شکل میں دیا جاوے گا جہاں دارالخلافہ کے وسط میں ہونے کے باوجود سی سی ٹی وی فوٹیج مہیا ہونے کا فقدان ہوگا۔ مزید برآں، مین سٹریم و سوشل میڈیا کے تمام نابغۂ روزگار بوٹ پالشان کا پٹہ باقاعدہ کھول کر ایسے غداران وطن افراد کے لیے کھول دیا جاوے گا۔ درج ذیل میں اسی پٹہ کھلنے کی ایک مثال شکل کی مدد سے واضح کی جارہی ہے تاکہ سند رہے۔ اصطبلچمنٹ نامی ہمشیرہ و خالہ زاد عظمی اس امر کو یقینی بنائیں گی کہ اگلے اڑتالیس گھنٹوں میں اس ٹھوس ثبوت کو دلیل بنا کر مزید پالتو جیسے سیاست ڈاٹ پی کے، پاکستان ڈیفینس، آواز ٹی وی، اے آر وائے، بانوے ورلڈ گپ نیوز وغیرہ اس راگ کو مقبول موسیقی بنا کر دم لیں۔ شنید ہے کہ ہمشیرگان اس راگ پر مولانا فضل الرحمن تک کو سیاسی ٹھمکے لگوانے کا عزم مصمم لیے بیٹھی ہیں اور اس ضمن میں مولانا کی ایک اہم فائل راولپنڈی کی غلام گردش میں گردش پذیر ہے۔
“اندر کے آدمی”
آستین کے سانپوں کے بعد پیش خدمت ہیں چڈی کے بچھو جو آپ کے کمفرٹ زون کے نازک ترین حصوں کے قریب آکر ایسی جگہ ڈستے ہیں کہ آپ ٹھیک سے بتانے کے قابل بھی نہیں رہتے۔ ماضی میں وقار کی عظمت کا بذریعہ ریپ شکار ہونے والی ڈاکٹر شازیہ کی آواز کامیابی سے بند کرنے والے “اندر کے آدمی” جناب محسن جمیل بیگ کو اس بار نورانی کی کا قلم تھامنے کا ٹاسک تفویض کیا گیا ہے۔ یہ وہی محسن بیگ ہیں جنہوں نے ڈاکٹر شاہد مسعود کے ساتھ مل کر ڈاکٹر شازیہ کو دبئی بھجوایا اور اوباش کپتان (آپ غلط سمجھے، میرا مطلب کیپٹن شاہد تھا) کو عدالت سے بری کرنے کا منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچایا۔ محسن جمیل بیگ کی جانب سے کسی کی ہمشیرہ کو چھیڑنے کے الزام پر بھی چند دانشورانِ ملک بھوٹان کا را اور موساد پہ الزام دراصل قوم کے ذہنی مریض ہونے یا نہ ہونے کا امتحان قرار پاتا ہے۔
“انوکھا لاڈلہ، کھیلن کو مانگے چاند!”
مطالعہ پاکستان کی تدوین و اشاعت کرنے والوں سے درخواست ہے کہ آئیندہ تمام کتب میں دیسی مہینوں کو موسم لکھا و پڑھا جائے۔ مزید درخواست ہے کہ ایڈمرل جنرل وزیراعظم صدر چیف جسٹس مفتی علامہ فیس بک جناب عمران خان نیازی کی خواہش کے مطابق آئیندہ سے سال میں بارہ موسم سمجھے اور پڑھے جاویں۔ سکول انتظامیہ سے عرض کے اب سے گرمی سردی کے علاوہ ساون بھادوں کی چھٹیوں کا بندوبست بھی کیا جائے۔