زندہ انسان کو اتنا تنگ کرتے ہیں کہ اس کے لیے زندگی بے معنی ہونے لگتی ہے۔ جیسے چھ دن کے بھوکے کو سوکھی روٹی بھی عیاشی لگتی ہے، بس ایسے ہی اپنے مہربان۔۔ انسان کو ایک لمحے۔۔ بس ایک ایسے لمحے کی طرف لے جاتے ہیں جس لمحے زندگی اس قدر اذیت ناک ہونے لگتی ہے کہ بس اس احساسِ اذیت سے نجات بھوکے کی سوکھی روٹی کی طرح عیاشی لگنے لگتی ہے۔
آپ سوچتے ہوں گے، بھلا موت سے بڑھ کر کیا اذیت ہو سکتی ہے؟
پتہ نہیں۔
میں نے موت کا ذائقہ نہیں چکھا مگر ہر ذی نفس کی طرح ایک دن اجل کو گلے سے لگانا ہی ہے۔ جس دن ایسا ہوگا اسی روز معلوم ہوگا کہ اذیت کس قدر رہی۔
لیکن اس سے پہلے کئی اذیتیں ہیں جو ہم سب جھیلتے ہی رہتے ہیں۔ مثلاً کوئی احساس جرم جو آپ کے ضمیر پر ایک بوجھ بنے ہمہ وقت آپ کے ساتھ ہو۔ مثلاً آپ نے والدین کو ستایا ہو اور پھر ایسا معلوم ہوتا ہو کہ آپ کے ساتھ ہر برے ہوتا کام آپ کی سزا ہے۔ مثلاً مسکرانا آپ کی عادت ہو اور آپ کی زندگی سے یہ مسکراہٹ غیر ارادی طور پر چھین لی جائے۔ مثلاً آپ ایک آزاد روح ہوں مگر آپ کو سونے کے پنجرے میں قید کرنے کے جتن کیے جائیں۔
مثلاً آپ کو جس سے دہائیوں سے محبت ہو آپ اسی کو اپنے ہاتھوں اذیت میں دیکھیں۔ مثلاً جسے آپ سے محبت ہو وہی آپ کی دنیا کو جہنم بنانے پر تل جائے۔ مثلاً آپ کسی کا احترام کرتے ہوں مگر وہ آئے روز آپ کو زلیل کرنے پر اتر آئے۔ مثلاً آپ بھوکے ہوں مگر آپ کے پاس کھانے کو کچھ نہ ہو۔ مثلاً آپ کا پیٹ زبردستی آپ کی مرضی کے خلاف بھرا جائے۔ مثلاً آپ زندہ رہنا چاہتے ہوں مگر آپ کو آئے روز موت کے قریب کیا جائے۔ مثلاً آپ مرنا چاہتے ہوں مگر آپ کو زندہ رہنے پر مجبور کیا جائے۔ مثلاً۔۔
مثالیں بہت ہیں۔ دی ہی کیوں جائیں آپ کو؟
موت کے بعد جنازے پر گفتگو ہوتی ہے۔
کہنے والے کہتے ہیں خود کشی کرنے والا ڈپریشن کا شکار تھا جس کے باعث اس کی قوت فیصلہ متاثر ہوئی۔ کیا وہی معاشرہ جو ڈپریشن کی وجوہات میں سے ایک تھا، ڈپریسڈ بندے کی ذہنی حالت پر فیصلہ کجا رائے دینے کا مجاز بھی رہ جاتا ہے؟
کہتے ہیں جانے والا خود غرض تھا، اپنی آسانی کے لیے دوسروں کو تکلیف دے گیا۔ میرا خیال اس کے برعکس ہے۔ ممکن ہے وہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی آسانی پیدا کرنے کا سوچتے جا رہا ہو؟ یار یہ سوال زندہ رہ جانے والے وہ حیوان خود سے کیوں نہیں کرتے جو کسی انسان کو دنیا سے بھگانے کی وجہ بنتے ہیں؟ کیا یہ خود غرضی نہیں کہ ہم اپنے جذبات کی تسکین کے لیے کسی کی زندگی اجیرن کرتے رہیں اور جب وہ چلا جائے تو اسے خود غرض بھی کہیں؟
کہتے ہیں خود کش بزدل تھا کم ہمت تھا۔ یعنی ایک بندہ اپنے متحرک دماغ کا، اپنی سوچ کا، اپنی یادداشت کا، اپنی خوشیوں کا، اپنے غموں کا، اپنی صبح، دوپہر، شام، رات کا وجود نس کاٹ کر یا پھندے سے لٹک کر یا خود سوزی کر کے یا دریا میں چھلانگ مار کے یا نشہ آور گولیاں کھا کر متروک کر دے، اور اس سب کے باوجود خود کش بزدل تھا؟ تف ہے۔ اور کوئی یہ جواب دے تو وہی جنازے پر بیٹھے دلیل دیتے ہیں کہ یہ خود کشی کو گلیمرائز کرنا ہے۔
کیسے نہ کریں خود کشی کو گلیمرائز؟ کسی کو اس قدر دیوار سے لگا دو کہ وہ آنکھیں بند کر کے کچھ بھی سہنے کو تیار ہوجائے اور پھر جب وہ کچھ بھی سہہ جائے تو اسے بہادر ماننے سے بھی انکار کیا جائے؟ ایسے کیسے؟
ہاں ہمیں تکلیف ہوگی اگر ہمارا قریبی خود کشی کر لے۔ بہت تکلیف ہوگی۔ لیکن سوال یہ ہوگا کہ کس کس شخص نے اسے اپنی جان لینے سے قریب تر کیا؟ کیا اس کے زندہ رہتے ہم احساس کر پائے کہ وہ اس نہج پر پہنچنے والا ہے؟ اور اگر ہمیں کسی وجہ سے معلوم تھا کہ ہاں وہ اس مقام پر پہنچنے والا ہے اور پھر بھی ہم نے کچھ نہ کیا تو پھر۔۔ لہو تو ہمارے ہاتھ پر ہوا۔
کہتے ہیں جو زندگی کے معاملات کو مینیج نہ کر سکے وہ بزدل ہے۔ ٹھیک ہے۔ ایسے بزدل کو پھر زندہ رہ کر کیا کرنا؟ مرنے دو اسے۔ بھگتو اس کا عدم۔ برداشت کرو اس کی جدائی۔ ماتم کرو اس کے جانے پر۔ جب وہ زندہ تھا اسے مل کر مارتے تھے سب۔ اب جب وہ نہیں رہا تو کر لو تبصرے جس نے کرنے ہیں۔
کہتے ہیں زندگی کا معاملہ اتنا مختصر نہیں کہ انسان اپنی ذات تک خود غرض ہوجائے۔ یہ سب مرنے کے بعد کیوں یاد آتا ہے؟ جب زندہ رہ کر اگلے کو زخم دے رہے ہوتے ہو تب کیوں نہیں یاد آتا؟
دعا دیتے ہیں اللہ سب کو اپنی حفاظت میں رکھے۔ ارے اللہ نے سب کام خود کرنے ہیں تو زمین والے کچوکے لگانے آئے ہیں؟ ہم کس کی حفاظت کر رہے ہیں کیسی حفاظت کر رہے ہیں؟ کیسے ہمارے ہوتے ہوئی ہم سے بدظن ہوکر واپس اسی خدا کے پاس جانے کی آرزو لے بیٹھا ہے کوئی؟ ہم سب ذمہ دار ہیں جو حفاظت میں رکھنے کی دعائیں دے کر اذیت دیتے ہیں زندہ انسان کو۔ جو آخرت کسی نے نہیں دیکھی اس کا عذاب آج ابھی اس وقت زیادہ اذیت دے گا یا وہ عذاب جو بندوں نے قائم دنیا میں دینے کا فیصلہ کر لیا ہے؟
کہتے ہیں خدا سے دوری کا نتیجہ ہے کسی کا خود کشی کرنا۔ یقین کریں خدا کی قربت میں دوسروں کی جان لینے سے کہیں بہتر ہے خدا سے دور پر کر اپنی جان لے لی جائے۔ ویسے بھی اپنے ہر نیچ گھٹیا عمل کا منفی اثر دوسروں کے رویے پر ڈال کر اسے دین اور خدا سے دوری قرار دینے سے بڑھ کر نیچ، گھٹیا اور زلیل عمل کوئی ہے ہی نہیں۔
بہت غور اور فکر کے بعد میں ایک ایسے نتیجے پر پہنچا ہوں جس سے آپ میں سے اکثر کو تشویش، اختلاف اور افسوس ہوگا۔ مجھے اس سے کوئی مسئلہ نہیں۔
بقول جون۔۔
یوں مجھے کب تلک سہو گے تم
کب تلک مبتلا رہو گے تم
درد مندی کی مت سزا پاؤ
اب تو تم مجھ سے تنگ آجاؤ
میں کوئی مرکزِ حیات نہیں
وجہ تخلیقِ کائنات نہیں
میرا ہر چارہ گر نڈھال ہوا
یعنی، میں کیا ہوا، وبال ہوا
جون غم کے ہجوم سے نکلے
اور جنازا بھی دھوم سے نکلے
اور جنازے میں ہو یہ شورِ حزیں
آج وہ مر گیا، جو تھا ہی نہیں