1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. معاذ بن محمود/
  4. اسلامی جمہوریہ پاکستان اور بچوں کا جنسی استحسال

اسلامی جمہوریہ پاکستان اور بچوں کا جنسی استحسال

ریاست پاکستان کا سرکاری نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ یہاں آئین بھی مختون ہے۔ مذہب بھی موجود ہے۔ علماء، مفتیان کرام اور علامہ حضرات بھی آسانی سے دستیاب ہیں۔ مدارس کی بھی الحمد للہ کمی نہیں۔ دین کی تعلیم حاصل کرنے کی لگن بھی ناپید نہیں۔

لیکن اس کے باوجود اسلامی جمہوریہ پاکستان کے علاقے شجاع آباد میں بارہ سالہ بچہ جنسی زیادتی کے بعد اللہ کو پیارا ہو جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ ایسا ہر محلے میں نہیں ہوتا ہوگا، مگر کم و بیش ہر محلے میں بچوں پر جنسی تشدد کا ایسا ایک آدھ ایسا واقعہ اکثر اوقات اہل محلہ کو معلوم ضرور ہوتا ہے۔ خبروں کی حد تک سہی، ایسے واقعات بہرحال عام ضرور ہیں۔ بہت عام سا سوال ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟

چلیے یہ سوال اٹھانے سے پہلے ایک اور سوال سامنے رکھتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا و یورپ کے غیر اسلامی ممالک میں پورن دستیاب ہونے کے باوجود بھی ایسے واقعات اس بہتات کے ساتھ نظر نہیں آتے جیسے اسلامی جمہوریہ میں دکھائی دیتے ہیں، ایسا کیوں؟

ان سوالوں کے جواب کے لیے (ہم سب تو نہیں مگر) ہم میں سے اچھے خاصی تعداد اپنے اپنے نظریاتی تصورات کی مناسبت سے، یا ملک کو جیسا دیکھنا چاہتے ہیں اس عینک سے یا پھر عین ممکن ہے واقعتاً سوچ بچار کرنے کے باوجود اپنی اپنی وجوہات ڈھونڈ کر لے آتے ہیں۔ لیکن ایک آدھ وجہ اور بھی ہے جس کی عملی تصویر اس پوسٹ میں پیش ہے۔

بچے معاشرے کی عمومی اور معاشرے کے ہر اس طبقے کی مشترکہ و خصوصی ذمہ داری ہوتے ہیں جن کا انٹرایکشن بچوں سے رہتا ہے۔ اس ذمہ داری کی وجہ یہی رہتی ہے کہ بچے ناصرف جسمانی طور پر اپنی حفاظت کے قابل نہیں ہوتے بلکہ ذہنی لحاظ سے بھی معاشرے کے بلوغت کو پہنچ جانے والوں پر انحصار کرتے ہیں۔ مزیدبرآں کسی بھی بچے کی بہتر شخصیت وضع کرنے کے لیے اس کے بچپن کا کسی بھی حادثے یا ٹراما سے بچا رہنا بھی نہایت اہم ہے۔ بچے معصوم ہوتے ہیں۔ دنیا کے مکر، فریب اور ظلم و ستم سے نابلد، کجا ان کے پیچھے پنہاں وجوہات سے آشنا۔ بچے پھول ہوتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں ہنسی مزاق کے نام پر کئی بری عادات عام ہیں۔ ہم بیگمات پر گھٹیا ترین مذاق بناتے ہیں، ہم اپنے یہاں موجود کسی کمزور طبقے سے متعلق نت نئی جگتیں ایجاد کرتے بہت خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ہم پٹھانوں اور سرداروں کے نام پر racist jokes پھیلانے میں کسی بھی طرح کے بخل سے کام نہیں لیتے۔ ہم خواتین پر ٹھٹھے اڑانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ اور اس سب کے بعد رات کے کھانے پر اپنے ہی گھر والوں کو بتا رہے ہوتے ہیں کہ زمانہ بہت خراب ہوچکا ہے، حالانکہ گھر والے ہمارے ہی معاشرے کا ایک حصہ ہوتے ہیں۔

میں نے اوپر ایک سوال چھوڑا تھا کہ ہماری مختون ریاست میں جہاں صنفی اختلاط کو معاشرے کا ایک بڑا حصہ برا سمجھتا ہے، جہاں پورن کو ممنوع اور برا سمجھا جاتا ہے، جہاں مذہب پر ٹھیک ٹھاک زور دیا جاتا ہے، ایسے معاشرے میں بچوں کا ریپ نسبتاً عام بات ہے جبکہ اس کی نسبت ایک غیر اسلامی معاشرے میں جہاں جنسی اختلاط بھی شخصی آزادی میں شمار ہوتا ہے اور پورن بھی، جہاں مذہب اپنا زور کھو چکا ہے وہاں بچوں کا ریپ نسبتاً کم دیکھنے کو ملتا ہے؟

اس کی ایک وجہ جنسی گھٹن بتائی جاتی ہے جو شاید کسی حد تک درست بھی ہو تاہم میں نہیں سمجھتا کہ جس بندے نے اپنی گرمی نکالنی ہو اس کے لیے اپنے علاقے یا شہر میں کوئی پیڈ سیکس کا حل موجود نہ ہو۔

مہذب معاشروں میں بچوں کا جنسی استحصال ایسا جرم تصور کیا جاتا ہے جس کے ثابت ہونے پر زندگی آزاد رہتے بھی عذاب بن جاتی ہے۔ انسان پر تمام عمر ایک چھاپ لگ جاتی ہے۔ ملازمت ملنا قریب قریب ناممکن ہوجاتا ہے۔ بچوں کے قریب جانا حرام قرار پایا جاتا ہے اور سب سے اہم بات۔۔ معاشرہ آپ پر تھوکنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ جیلوں میں موجود قاتل بھی ایسے جرائم میں ملوث افراد کو perv کہہ کر ان سے نفرت کرتے ہیں۔

اور جانتے ہیں ہمارے معاشرے میں کیا ہوتا ہے؟

جرم کی سنجیدگی کو desensitize کرنا بذات خود ایک جرم ہے، کم از کم میری نظر میں۔ بے حسی آپ کے معاشرے میں نئے مجرم کو پنپنے کا موقع دیتی ہے کیونکہ نیا مجرم جرم کرنے سے پہلے جرم کی سنجیدگی سے ناواقف رہتا ہے اور اس کی وجہ آپ کا معاشرہ ہوتا ہے۔ یہ کون صاحب ہیں، ذاتی زندگی میں کتنے شفیق ہیں، کتنے صادق و امین ہیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ سوال سب اتنا ہے کہ کیا یہ ہنسنے کی بات ہے؟ ایک ظالم کی جانب سے اپنے مظالم کا اعتراف، ایک مجرم کی جانب سے اپنے جرائم کا اعتراف، ایک استاد کی جانب سے اپنے بچوں کے جنسی استحصال کا اعتراف اور اس پر ایسی بے حسی؟

ریاست جرائم کو قابو کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے میں کامیاب ہو یا نہ ہو، کم از کم میں اور آپ بطور اس معاشرے کی اکائی تو اس قسم کے گھٹیا واقعات اور اقبال جرم پر تو بے حسی سے باہر نکل سکتے ہیں؟ ان صاحب کے اپنے بچے خدا جانے ہیں یا نہیں لیکن آپ لوگوں کے ارد گرد بیٹا، بیٹی، بھانجہ، بھانجی، بھتیجہ، بھتیجی، بہن، بھائی وغیرہ وغیرہ وغیرہ وغیرہ کی شکل میں تو بچے ہوں گے ناں؟ تو کیا ہم دوسروں کے بچوں کا ریپ کرنے والے کی ہنسی سے کراہت محسوس نہیں کر سکتے؟ یا ایسے گھٹیا پن کے لیے خدانخواستہ ہمارے کسی اپنے ہی کو ظلم سہنا پڑے گا؟

مہذب معاشرے کا بچہ ہمارے معاشرے کی نسبت اس وجہ سے نسبتا محفوظ ہے کہ وہاں معاشرے میں اس کا استحصال کرنے والے مجرموں اور ان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والوں کو گھٹیا سمجھا جاتا ہے۔ یہ بندہ کسی مہذب ملک میں ہوتا تو اس کے خلاف کاروائی کے ساتھ ساتھ اس معاملے کی سنجیدگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پر تحقیقات ہوتیں اور ملوث مجرم کو ایسی مثال بنایا جاتا ہے آئیندہ کوئی افضل بٹ اس پر ہنسنے سے پہلے پچیس ہزار بار اس پر سوچتا ضرور۔

بہرحال آنسو بہائیے کہ آپ کے معاشرے میں بچوں کے ریپ پر قہقہہ لگانا ایک نارم سمجھا جاتا ہے۔