ڈرائیونگ میرا passion ہے تو دوسری جانب exploration میرا عشق۔ پانچ دن یہ دونوں کام دل و جاں سے کر کے آیا ہوں۔ اپنے بچے بھی لکڑ ہضم پتھر ہضم ہیں۔ گاڑی میں cranky نہیں ہوتے۔ آئی پیڈ، موبائل، آپس میں گپ شپ کے ساتھ مزے میں رہتے ہیں۔ کافی حد تک پوری فیملی ہی سفر اور سیاحت کو انجوائے کرتی ہے۔
آسٹریلیا حسین ہے۔ اجلا آسمان، شفاف پانی، صاف زمین، سبزہ ہی سبزہ۔ کم از کم سڈنی سے میلبرن اور میلبرن سے ایڈیلیڈ تک تو ایسا ہی ہے۔ چوبیس گھنٹے کی ڈرائیو الی طول تو یہی ہے۔ مرکز کی طرف الگ رقبہ۔ ایسا ملک چاہئے تھا۔ ایسا ملک اپنا پاکستان بھی ہو سکتا تھا مگر کیا کیجیے کہ مری میں دوران برفباری انڈے کی قیمت جس مصنوعی پن سے بڑھتی ہے بخدا سمندر کے بیچوں بیچ واقع کینگرو آئی لینڈ کے عین وسط میں بنے پیٹرول پمپ پر بکنے والی کافی کی قیمت ویسی نہیں بڑھتی۔
حرص بری شے ہے اور ہم بحیثیت پاکستانی بہرحال کم حریص نہیں۔ پاکستان سے نکل کر بھی پاکستان ہم میں سے نہیں نکلا۔ اچھی یادوں پر بات ہو رہی تھی جانے دل جلانے کا سامان کیونکر پیدا کر ڈالا۔
ایڈیلیڈ سٹی کے وسط میں وکٹوریا سکوئیر ہے۔ یہاں tasting australia کے نام سے ایک ایوینٹ جاری تھا۔ متعدد کھابے کے سٹالز کے ساتھ دو عدد اوپن بار بھی تھے۔ شراب، شباب اور کباب تینوں کی بہتات تھی۔ لحم الخنزیر سے ام الخبائث تک سبھی کچھ جاری تھا۔ رمضان بھی ختم تھا پھر بھی شاہین بازار پشاور میں چادروں میں ملبوس شیاطین والی دست اندازی کا خوف نہیں تھا۔ رش تھا کہ مت پوچھیے مگر کوئی پلاسٹک کا گلاس زمین پر رلتا نہیں دکھائی دیتا تھا۔
آہ۔۔ پھر وہی دل کے پھپھولے۔۔
دوران سفر متعدد مقامات پر پیٹرول بھرنے گاڑی روکنی پڑی۔ ہماری طرح اور فیملیز نے بھی پیٹرول بھروانا ہوتا تھا۔ ہم نے دیکھا کہ ہر دوسری 4x4 گاڑی جس کے پیچھے کچن، سلیپنگ بیڈ اور باتھ روم سے آراستہ caravan لگا ہوتا اسے چلانے والا ایک ضعیف العمر آسٹریلین اور اہلیہ ہوا کرتی تھیں۔ ہماری نصف بہتر کو بھی تعجب ہوا کہ یہ سارے ضعیف سیاحت پر کیوں نکلے ہیں۔
بھئی جب آپ ۱۸ کی عمر میں اپنی سال اولاد کو اپنا کماؤ اپنا کھاؤ کی تاکید کر کے ریاست میں کھلا چھوڑ دیتے ہیں، ریاست جنہیں اعلی تعلیم میں سبسڈی الگ دیتی ہے بلاسود قرضے الگ تو کیا وجہ رہ جاتی ہے ان کے سر پر سائباں بنے رہنے کی؟ پرندے بھی ایک وقت تک ہی بچوں کی نگہبانی کیا کرتے ہیں۔ اس کے بعد کس سے mating کرنی ہے کس سے نہیں یہ فیصلہ بھی ہم برصغیر پاک و ہند ہی کے والدین کا ازلی حق ہے۔
اس کے سوا تو کوئی ایسی مثال نہیں ملتی۔ بچوں کو آزاد کر کے والدین خود آزاد ہوتے ہیں اور اپنی زندگی بھر کی کمائی سے سیر سپاٹے پر نکل جایا کرتے ہیں۔ راستے میں جہاں ملتے ہیں ایک محبت بھری مسکراہٹ سے مرحبا کرتے ہیں and they really mean it ناکہ بس مصنوعی سی مسکراہٹ۔
میرا مالی Gardner غالبا ۷۷ برس کا ہے۔ زندگی بھر ڈینٹسٹ رہا۔ اب ہفتہ بھر گھروں کی گھاس کاٹتا ہے اور ویک اینڈ پر گالف کھیلتا ہے۔ بیچ میں غالبا تھائی لینڈ گیا ہوا تھا بیگم کے ساتھ۔ ایک ہم ہیں، اپنی پسند کی ملازمت نہ ملے تو بادل نخواستہ جو مل جائے بے دلی سے فقط روٹی روزی واسطے چل پڑتے ہیں۔
آپ Don کو گھاس کاٹتے دیکھ لیں۔ جس انہماک اور دل سے کام کرتا ہے میرا دل ہی نہیں کرتا اسے ہٹا کر خود اپنی mowing machine خریدنے کا۔ اپنے دیس میں ابے کو پانی پینے کے لیے اٹھنے نہیں دیا جاتا اور آخرکار بیٹھے بیٹھے جب اٹھنے کے قابل نہیں رہتا اگلا تو تنگ آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ بھئی انسانی جسم بنا ہی ایسے ہے کہ جب تک حرکت میں رہے گا برکت میں رہے گا۔ ایک بار بیٹھ گیا تو اٹھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ بات پھر وہی ہے۔۔ اگلوں نے ساڑ سمجھ لینا ہے۔
پون گھنٹے کے سمندری سفر کے بعد کینگرو آئی لینڈ پہنچنے تک موقع ہی نہ ملا تھا سوچنے کا کہ کیا کیا کرنا ہے۔ کینگرو آئی لینڈ کی پورٹ Penneshaw کے علاقے میں واقع تھی۔ یہاں اترے، گاڑی فیری سے باہر نکالی تو سمجھ نہ آیا کہاں جائیں۔ کوئی تین سو میٹر پر ایک عدد انفارمیشن سینٹر دکھائی دیا۔ گاڑی پارک کی اور پہنچ گیا اندر۔ سامنے ایک عمر رسیدہ آنٹی بیٹھی تھیں۔ ایسی آنٹیاں ہمارے یہاں میری مرحوم دادی یا نانی کی عمر کی ہوتی ہیں۔
آنٹی کو گڈ مارننگ کہہ کر سمندری سفاری اور سنور کلنگ کی بابت دریافت کیا تو انہوں نے کہا اسے تو چھوڑ ناں پہلے یہ بتا آیا رہائش کس ہوٹل میں ہے تاکہ میں گائیڈ کروں۔ بتایا فلاں ہوٹل تو آنٹی نے واقعتا چالیس منٹ لگا کر پورے تین دن پلین کر کے دیے نقشے پر۔ کینگرو آئی لینڈ کا رقبہ ساڑھے چار ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ آنٹی مدد نہ کرتیں تو ہم نے جھک ہی مارنی تھی دو دن۔
ایڈیلیڈ سٹی میں ہم نے پنج ستارہ ہوٹل کا بندوبست کیا تھا۔ کمرے کا کارڈ وغیرہ لے کر اندر پہنچے تو سامنے ایک عدد گفٹ پڑا تھا۔ گفٹ کیا تھا بھلا؟ ایک نہایت ہی عمدہ اور قیمتی شراب (استغفراللّٰہ)، مع ٹونک واٹر، ریڈ بلڈ اورنج کے قتلے اور ایک عدد براؤنی۔ چونکہ دو کمرے بک کیے تھے لہذا گفٹ بھی دو ہی ملے۔ ایسے ہدیے کا مصرف کیا بنا اس پر پھر کبھی بات سہی۔ بچوں کو دیکھ کر استقبالیے پر موجود سٹاف نے بتایا کہ سوئمنگ پول ۲۴ گھنٹے کھلا رہتا ہے، انجوائے کرو۔ آخری رات ہم سب نے سونے سے پہلے کئی گھنٹے گرم پانی میں ہی گزارے پھر۔
وادی بروسا Barossa Valley کی وجہ تسمیہ یہاں کی پہاڑیاں، انگور کے باغات vineyards اور وائنریز wineries ہیں۔ ہم نے نصف روز یہاں دان کرنے کا عہد کیے رکھا تھا۔ وادی کے نشیب و فراز، جگہ جگہ انگور کے باغات اور اس کے اندر انگور کی اقسام دیکھ کر رب کی نعمتیں تو یاد آئی سو آئیں، وائن میکنگ اور ٹیسٹنگ کو قریب سے دیکھ کر دل میں بہرحال ایک خواہش یہ ضرور جاگی کہ آخری عمر میں اپنی بھی ایک عدد وائنری ضرور ہونی چاہیے جہاں Shiraz، Chardonnay اور Pinot Noir کے بیچ نکال کر نسلیں سنوار دی جائیں۔
گورے نے جس نفاست سے اس شعبے کو پروموٹ کر کے اسے انڈسٹری کا درجہ دیا اور پھر اس پورے علاقے کو سیاحت کے لیے رول ماڈل بنا کر پیش کیا، کاش ہم بھی درے کی چرس کو لے کر ایسا کوئی زون بنا سکتے۔ بخدا ریپبلک کی قسمت بدل جاتی۔ لیکن بات پھر وہی ہے۔۔ ہزار خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔۔
مذہب کے نام پر سیاحت ویٹیکن، یروشلم یا مکہ مدینہ میں ممکن ہے باقی پوری دنیا میں سیاحت کے نام پر سہولیات اٹھا کر دیکھ لیجیے، مذہب شاذ ہی کہیں قدغن کے طور پر متحرک ہو۔ ہمارے حکمران تا عوام سبھی اس معاملے پر گوبھی بنے رہتے ہیں۔ یاد رکھیے جب تک ہم یہ بات نہیں سمجھیں گے ویزے کی آسانی سے لے کر سنڈاس کی سہل فراہمی تک یہ سب بکواسات ہی کے زمرے میں آئے گا۔
میلبرن تا ایڈیلیڈ کوئی ساڑھے سات سو کلومیٹر سفر بنتا ہے۔ گاڑی میں قریب نو گھنٹے کا سفر بغیر کسی توقف کے۔ رکتے ہوئے جائیں تو دس گھنٹے کہیں نہیں گئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رکا کیوں جائے؟ اس کا ایک سادہ سا جواب ہے راستے میں پیٹرول بھروانے یا واش روم وغیرہ جانے کے لیے۔ لیکن اس کا ایک جواب اور بھی ہے۔ میں یہ بات مان نہیں سکتا کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں آپ ساڑھے سات سو کلومیٹر سفر کریں اور درمیان میں قابل ذکر مقامات نہ آئیں۔
امارات چھوٹا ملک ہے لہذا اس کی بات نہیں کرتے تاہم عمان میں بھی یہ بات نوٹ کی کہ ہر پچاس ساٹھ کلومیٹر کے بعد ایک بھورا بورڈ ملتا جہاں ٹورزم پوائینٹ یا کسی تاریخی مقام کی نشاندہی ہوتی۔ ایڈیلیڈ جاتے ہوئے جانے کتنے ایسے بورڈ دکھائی دیے جن میں سے اکثر پر ہم رکے بھی۔ جدید تاریخ میں آسٹریلیا پر پہلا بیرونی قدم ۲۶ جنوری ۱۷۸۸ میں رکھا گیا۔ گویا یہاں کی تاریخ اس کے بعد سے شروع ہوتی ہے۔
پاکستان اس اعتبار سے ٹھیک ٹھاک پرانا خطہ ہے۔ اپنی طرف ٹیکسلا کے علاوہ یہ نشاندہی کہیں کہیں دیکھنے کو ملتی ہے۔ ذرا سوچیے ہم کس قدر زرخیز تاریخ کھوتے چلے جا رہے ہیں۔ ہمارا محکمہ سیاحت اس ضمن میں کیا کرتا رہا ہے یہ اپنے آپ میں ایک سوال ہے۔
ساؤتھ آسٹریلیا سٹیٹ میں Lobethal کے نام سے ایک خوبصورت قصبہ ہے۔ یہاں پہاڑ، سبزہ، ایک چھوٹا سا مرکزی بازار اور خوبصورت گھروں کے ساتھ ساتھ فارمز قابل ذکر تھے۔ میں وجہ نہیں جان پایا تاہم کسی وجہ سے میرا شدید دل ہوا کہ یہاں زمین لے کر رہائش اختیار کی جائے۔
شہر سے سینکڑوں کلومیٹر دور ایک چھوٹا سا قصبہ جہاں کسی قسم کی خرافات کی رسائی نہ ہو، جہاں چند جانور اور چند نباتات کے ذریعے زندگی گزاری جائے۔ یہ سوچ اور کئی مقامات پر بھی ذہن میں نمودار ہوتی رہی۔ اس معاملے میں مزید تحقیقات باقی ہیں تاہم شہر سے دور رہنے کے تصور پر اب ایمان راسخ ہونے لگا ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہی بات میں پاکستان کو لے کر کیوں نہیں سوچ پاتا؟
منتشر خیالات کو ٹوٹے پھوٹے الفاظ کی شکل دینے کا آج کا سلسلہ میں اسی سوال پر ختم کرتا ہوں۔ اگلے چند لمحے میں ریاست مدینہ کی اصطلاح پر ہنستے ہوئے گزاروں گا اور پھر واپس کام میں جت جاؤں گا۔