اس مضمون کو پڑھنے کے بعد متوقع قلمی جھڑپوں سے بچنے کے لیے پیشگی عرض ہے کہ راقم کا تعلق پشاور سے ہے۔ میٹرک تک تعلیم ایف جی بوائز پبلک ہائی سکول خیبر روڈ پشاور سے حاصل کرتے ہوئے ایڈورڈز کالج پشاور سے ایف ایس سی مکمل کی۔ والد مرحوم سرحد اسمبلی کے ایک ایسے ڈیپارٹمنٹ میں تھے جہاں مرتشی ناپید اور راشیوں کا فقدان تھا۔ میڈیا کا سورج اس وقت آج کی آب و تاب سے چمکا نہ تھا لہذا تعلیم کا اگلا مرحلہ کسی سستی مگر حتی الامکان اچھی یونیورسٹی میں داخلہ تھا۔ والد مرحوم کا خواب انجینیئر بنانا تھا لہذا انجینیرنگ یونیورسٹیز کی جانب توجہ مبذول کی۔
انکشاف ہوا کہ پشاور میں لے دے کر ایک ہی مستند سرکاری انجینیرنگ یونیورسٹی ہے جہاں کی تعلیم پاکستان انجینیرنگ کونسل سے منظور شدہ ہے۔ یونیورسٹی آف انجینیرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پشاور میں تب (اور شاید اب بھی) الیکٹریکل انجینئرنگ سرفہرست ہوتی جہاں داخلے کے لیے شدید مقابلہ رہتا۔ مجھے اپنے دور کے اعداد و شمار تو نہیں مل سکے البتہ پچھلے سال 16000 کے لگ بھگ امیدوار داخلہ امتحان کے لیے بیٹھے جن میں 750 نے کامیاب طے پانا تھا۔ والد صاحب کی آمدن اتنی تھی کہ سیلف فنانس بمشکل برداشت کر پاتے لہذا اوپن میرٹ (یعنی مکمل مفت تعلیم جو ہر ٹیکنالوجی کے پہلے دس طلباء کے لیے مختص ہوتی) پہ ہی نظر تھی۔ جو ٹیکنالوجیز قابل قبول تھیں ان میں ٹیلیکام، الیکٹریکل اور کیمیکل انجینیرنگ شامل تھیں اور یوں ہمارے لئے لازم تھا کہ لڑ بھڑ کے ان تیس سیٹوں میں پہنچ جائیں۔
اعداد و شمار اور ذاتی تجربے پہ مبنی اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ پشاور کا شہری ہوتے ہوئے پشاور میں مالی طور پر قابل قبول انجینیرنگ کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا جو مجبوراً ہم لائے اور دو ہزار سات میں فارغ التحصیل ٹھہرے۔ اس وقت تک کم از کم ہمیں سیاستدانوں کے بلند و بانگ دعووں سے کوئی شغف نہ تھا سو ہمیں کوئی سروکار نیم ہوتا تھا کہ کون کیا گل کھلا رہا ہے۔
پھر یہ ہوا کہ میڈیا اور سوشل میڈیا پہ ان سیاستدانوں کی کیمپینر نے عوام الناس کی زندگیوں میں خناس بھر دیا۔ دور کے ڈھول سہانے تو ہوتے ہی ہیں، میڈیا نے اس قدر سہانے کر ڈالے کہ پوچھیے مت۔ تھوڑی دیر گزری کہ ایک صاحب نے لسٹ دکھائی جس کے مطابق موجودہ صوبائی حکومت نے نو عدد نئی جامعات تخلیق کی ہیں۔
یہ خبر میرے لیے ایک مثبت حیرانگی کا باعث تھی کیونکہ میں ذاتی طور پر جامعات خاص کر انجینیئرنگ یونیورسیٹی کے فقدان کا شکار رہ چکا ہوں۔ لسٹ دیکھی تو سب سے پہلے نظر انجینیئرنگ یونیورسٹی مردان پر پڑی اور باقی کہانی خود کھلتی گئی۔ اب سنئیے ان جامعات کی کہانی۔
۱۔ انجینیرنگ یونیورسٹی مردان: انجینیرنگ یونیورسٹی مردان 2002 سے قائم ہے اور پچھلے سال تک یہ انجینیرنگ یونیورسٹی پشاور کا حصہ تھی۔ میں ذاتی طور پر اسی کیمپس فارغ التحصیل ہوں اور میرا تعلق 2003 بیچ سے ہے جو اس کیمپس کا دوسرا بیچ تھا۔
۲۔ ایبٹ آباد یونیورسٹی: ایبٹ آباد یونیورسٹی پہلے ہزارہ یونیورسٹی کا کیمپس تھی۔
۳۔ ویمن یونیورسٹی صوابی: یہ جامعہ بھی 2013 سے موجود ہے۔ ماضی میں یہ شہید بینظیر بھٹو ویمن یونیورسٹی کا حصہ رہی ہے جسے ماضی قریب میں نام بدل کر تمغہ حاصل کیا گیا۔ قارئین نام سے جان گئے ہوں گے کہ یہ کارنامہ دراصل کس حکومت کا تھا۔
۴۔ ویمن یونیورسٹی مردان: 2009 میں عبد الولی خان یونیورسٹی کے نام سے بنی یہ یونیورسٹی بعد میں تختی بدل کے نئی یونیورسٹی بنا دی گئی۔ پچھلی جامعہ کا نام بتاتا ہے کہ یہ یونیورسٹی اصل میں کس نے بنائی ہوگی۔
۵۔ یونیورسٹی آف بونیر: اتفاق سے یہ یونیورسٹی بھی عبد الولی خان یونیورسٹی کا نام بدل کر اپنے نام کی گئی ہے۔
۶۔ زرعی یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان: اب تک کاغذات میں موجود اس جامعہ کا اب تک کوئی پتہ نہیں ہے لیکن اندازہ ہے کہ یہ گومل یونیورسٹی کے شعبہ زراعت کے ساتھ شرارت ہوگی۔
۷۔ یونیورسٹی آف سائینس اینڈ ٹیکنالوجی لکی مروت: یہ ادارہ بھی یونیورسٹی آف سائینس اینڈ ٹیکنالوجی بنوں کا کیمپس تھی، سو فقط افتتاح کر کے نام ہتھیا لیا گیا ہے۔
پیچھے رہتی ہیں دو جامعات جو شاید نہی ہیں، لیکن پشاور شہر کو پھر بھی کسی نئی یونیورسٹی سے محروم رکھا گیا ہے۔ مکمل طور پر نئی یونیورسٹی کے لیے جگہ، اساتذہ اور دیگر ریسورسز مہیا کرنا ایک بات ہے اور بنی بنائی یونیورسٹی یا کیمپس کا نام بدل کر کچھ اور رکھ دینا اور میڈیا پہ بیان دینا کہ نئی یونیورسٹی ہے، دونوں الگ باتیں ہیں۔