1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. معاذ بن محمود/
  4. لاپتہ

لاپتہ

ایجنسیوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے سلمان حیدر ہوں، بلوچ سردار ہوں یا پھر طالبان کی جانب سے اغوا کیا جانے والا شان تاثیر، ہونے کا کرب یکساں ہے۔ ماورائے عدالت ان اقدام کی اجازت نہ کوئی آئین دیتا ہے نہ کوئی شریعت۔ آپ کی ہمدردیاں جس جانب ہوں، تحریر کے آغاز سے اسی کو ذہن میں لائیے تاکہ اس درد کا اندازہ ہوسکے جس سے افراد گزرتے ہیں۔

پہلا منظر

خوف اور فقط خوف ہے۔ ایک تاریک گھٹن زدہ کوٹھری اور حبس۔ زنداں میں بھی مصاحبین کا ساتھ ہوتا ہو گا مگر یہ جگہ تو تنہائی کا پاتال ہے۔ روشنی کی ایک لکیر قفل زدہ دروازے کے نیچے دکھائی دیتی ہے۔ فی الوقت یہی میرا سہارا ہے۔ یہ سوچ کہ دل کانپتا ہے کہ رات بھی آنی ہے۔ مجھے اندھیرے سے گھبراہٹ ہوتی ہے۔ اس حد تک کہ سوتے ہوئے بھی بجلی چلی جائے تو غیر ارادی طور پر چیختے ہوئے آنکھ کھلتی ہے۔ ایسے میں ہوش تب آتا ہے جب “ماں” کی پکار سے نیند بھاگ جاتی ہے۔ وقت ماپنے کا کوئی آلہ دسترس میں نہیں لیکن محسوس ہوتا ہے جیسے مدت ہوئی، بس اسی سوچ میں ہوں کہ رات تک زندہ رہا تو کیا ہوگا۔ اس غیر انسانی کمرے کا خاصہ یہاں کسی بیت الخلاء کا نہ ہونا بھی ہے۔ میرے صیاد مہذب دنیا سے اس قدر دور ہیں کہ اس کمرے سے انسانی فضلے کا تعفن پھوٹ رہا ہے جس سے میرا دماغ پھٹنے کو ہے۔ لیکن مجبور ہوں کہ مہذب دنیا کا باسی ہونے کے باوجود اس تعفن میں اپنا حصہ ڈالنا پڑ رہا ہے۔

لیکن یہ تو وہ اذیت ہے جس کا سامنا میرے حواس خمسہ کو ہے۔ میرے لیے زیادہ بڑا مسئلہ روح کو اذیت ہے جس سے فرار ممکن نہیں۔ میری بیٹی میرا انتظار کر رہی ہوگی۔ بابا نے آج اسے نیا بیگ دلانے لے جانا تھا۔ کل سے دونوں بچوں کا سکول شروع ہورہا ہے۔ میرے بیٹے نے کب سے نئے پینسل باکس کی فرمائش کر رکھی تھی۔ میں آج کام کاج جلدی نپٹا کر نکلا تھا۔ آج ہم سب نے رات کا کھانا باہر کھانا تھا۔ ایسا کبھی کبھار ہی تو ہوتا ہے۔ اماں کی دوائی ختم ہونے کو تھی اور انہیں بھی آس دلا کر آیا تھا کہ آج دوا بھی لاکر دوں گا۔ جانے کب یہاں سے آزادی ملے گی؟ ملے گی بھی یا نہیں؟ ہوسکتا ہے مجھے قتل کر دیا جائے؟ ذبح کر دیا جائے یا پھر گلا گھونٹ کر مار دیا جائے؟ میری لاش کسی ویرانے سے ملے، کسی گڑھے سے یا کسی پیڑ سے لٹکتی، یا شاید لاش ملے ہی نہ؟ میری بیوی میرے بغیر بچوں کو کیسے پالے گی؟ میری ماں کو دوا کون لا کر دے گا؟

نہیں۔ میں اپنے اغواکاروں کے پیر پڑ جاؤں گا کہ مجھے معاف کر دو۔ تمہیں مجھ سے جو بھی شکایت ہے وہ ختم سمجھو بس مجھے ایک بار واپس جانے دو۔ آئیندہ کبھی تم پانچ مسلح افراد کو مجھ جیسے ناتواں کو ویگو میں ڈال کر یہاں لانے کی نوبت نہیں آئے گی۔ آئیندہ میں اپنی زبان بند رکھوں گا۔ میں کبھی صحیح غلط کی بحث میں نہیں پڑوں گا۔ جسے تم ٹھیک کہو گے اسی پہ ایمان لاؤں گا۔ مجھے اپنے لیے نہیں میری اولاد کے لیے زندہ رہنے دو۔ خدا کے لیے مجھے زندہ رہنے دو۔

دوسرا منظر

“ماما بابا کب آئیں گے؟ ہم نے آج باہر جانا تھا ناں؟ ٹائم بتائیں کیا ہوا ہے؟ گھڑی کی بڑی سوئی بارہ پہ ہے اور چھوٹی نو پہ۔ کیا وقت ہوا ماما؟ بابا نے کہا تھا آج وہ میرا سکول بیگ اور بھائی کا نیا جیومیٹری باکس لینے چلیں گے۔ ماما ہم نے کھانا بھی تو باہر کھانا تھا؟ اور دادو کی دوائی؟ اس کے بغیر تو دادو پھر سے بیمار ہوجائیں گی؟ ماما فون کریں ناں بابا کو۔ کیا مطلب کیوں نہیں لگ رہا۔ آپ پھر کوشش کریں۔ بابا کے آفس فون کریں ناں ماما۔ کب آئیں گے بابا؟ ماما وہ اس دن کسی کی گاڑی کا ایکسیڈینٹ ہوا تھا ناں؟ ماما کہیں بابا کا بھی تو ایکسیڈینٹ نہیں ہوگیا؟ ماما کہیں بابا کو بھی تو اللہ میاں نے اپنے پاس نہیں بلا لیا؟”

طمانچہ!

گفتگو کا اختتام۔

تیسرا منظر

اس تاریک کوٹھری میں میرے کئی دن بیت چکے ہیں۔ کتنے؟ یہ میں نہیں جانتا۔ میرے پاس وقت کا حساب رکھنے کا کوئی پیمانہ نہیں۔ روزانہ چند گھنٹوں کے لیے مجھے اسی آسیب زدہ کمپاؤنڈ کے ایک اور کمرے میں لے جایا جاتا ہے جہاں چار سے پانچ افراد میرے منتظر ہوتے ہیں۔ مجھے دیکھ کر ان کے چہروں پر جس نفرت و نخوت کا رنگ آتا ہے وہ شاید آج بھی میں ان کے لیے اپنے چہرے پر نہیں لا سکتا۔ اس کے بعد گھاؤ زنی کا ایک سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ مکوں، گھونسوں اور لاتوں سے خاطر تواضع کی جاتی ہے۔ میرا چہرہ کئی جگہ سے کٹ پھٹ چکا ہے۔ آنکھیں کئی دنوں سے سوجی اور جبڑوں سے وقتاً فوقتاً خون آتا رہتا ہے۔ ان کا یہ تشدد مجھ جیسے مرد کو رونے پر مجبور کر دیتا ہے مگر انہیں رحم نہیں آتا۔ اس کے بعد یہ میری روح پہ زخم ڈالتے ہیں۔ مجھے برہنہ کر کے ایک کیمرہ عکس بندی شروع کر دیتا ہے اور ایک بار پھر تشدد کا ایک دور چل نکلتا ہے تاوقتیکہ میں ہوش سے بیگانہ نہ ہو جاؤں۔

ہوش آنے پر میں اپنی کوٹھری میں ہوتا ہوں۔ میرے جسم کا ایک ایک انگ درد کے ذریعے اپنے ہونے کا احساس دلا رہا ہے۔ ایک جانب پلیٹ میں کچھ کھانے کو ہے۔ باہر کی دنیا میں کھانا میرا شوق ہے۔ اس قید میں یہی کھانا میری مجبوری۔ مجھے نہیں لگتا کہ میرے اغواکار مجھے زندہ واپس چھوڑیں گے لیکن ایک آس ایک امید ہے کہ شاید چھوڑ بھی دیں؟ ایسے میں بیماریوں کے ہاتھوں اپنے گھر والوں سے بچھڑ جانا مجھے قبول نہیں۔ مجبوراً جو ملے کھا لیتا ہوں۔ اندھیرا اب بھی بے حد رہتا ہے۔ وہی دروازے کے نیچے روشنی کی ایک لکیر کا آسرا۔

آخری منظر

مجھے کچھ زیادہ نہیں یاد۔ بس اتنا یاد ہے کہ مجھے اس رات بہت زیادہ مارا پیٹا گیا۔ عام مار پیٹ کے علاوہ میرے جسم کے مخصوص مقامات پر سگریٹ بھی داغی گئی۔ مجھے بتایا گیا کہ آئیندہ کس کے خلاف زبان چلانی ہے کس کے خلاف نہیں۔ مجھے سب سمجھ آگئی۔ مجھے معلوم ہوگیا کہ میرے اغواکار کون لوگ ہوسکتے ہیں۔ مجھے مار پیٹ کی اذیت سے کہیں زیادہ خوشی تھی کہ میں اب اپنے گھر والوں سے مل سکوں گا۔ لیکن میرے چارہ گر اپنا تشدد ختم ہی نہیں کر رہے تھے۔ پھر میں ہوش سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

ہوش آیا تو ماں کو سرہانے قرآن پڑھتے اور بیوی بچوں کو روتا پایا۔ ذہن میں آیا کہ اسلام ہو یا جمہوریت، اسلامی جمہوریہ کا کون سا قانون ان معصوموں کی آنکھوں میں آنسو اور دلوں میں ہیبت کی دلیل دے سکتا ہے؟ ماں کی دوا بیگم نے منگوا دی تھی مگر بچے خوف کے مارے سکول نہیں گئے۔ بیٹی کی آنکھوں میں شکایت تھی۔ اس نے کچھ نہیں کہا لیکن میں جان گیا کہ نیا بستہ میری ننھی پری کے دماغ پہ چھایا ہوا ہے۔ بیٹا نسبتاً بڑا ہے لہذا سمجھدار بھی ہے، خوشی دکھائی کہ میں واپس آگیا۔ میری بیوی شاید میرے جسم پہ تشدد کے تمام نشانات دیکھ چکی تھی۔ اس کی زبان بند اور آنکھوں سے فقط آنسو جاری تھے۔ یہ وہ کمزور لمحات تھے جنہوں نے مجھے توڑ ڈالا۔ مجھ پہ تشدد کرنے والے بیشک اپنے مقصد میں کامیاب ہوچکے تھے۔ آج انہوں نے کامیابی سے ایک اور آواز بند کر ڈالی۔ میں نے اپنی ہار اس امید کے ساتھ مان لی کہ شاید کہیں اور کوئی اور آواز اٹھ جائے۔

اب میں اپنا وقت اپنے کام میں اور کام کے بعد اپنی ماں، بیوی اور بچوں کے ساتھ گزارتا ہوں۔ جو ہے اس پر اوپر والے کا کرم ہے بس ایک مسئلہ ہے۔ اب مجھے اندھیرے سے خوف نہیں آتا۔ بالکل بھی نہیں۔ لیکن اب مجھے اندھیرے میں نیند بھی نہیں آتی!