1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. معاذ بن محمود/
  4. معلومات کے عہد کا منفی ارتقاء

معلومات کے عہد کا منفی ارتقاء

سنجیدہ خیالات متروک ہوتے جا رہے ہیں۔ پتہ نہیں یہ المیہ ہے یا رب کا احسان، بہرحال ہے حقیقت۔ کسی زمانے میں انٹرنیٹ کلب کے فقط دو ہی مصارف ہوا کرتے تھے۔ پہلا مصرف سیدھی سی بات ہے پور*، جبکہ دوسرا مصرف اجنبی انسانوں سے چیٹ۔ ڈیمانڈ سپلائی کا قانون تب بھی نافذ ہوتا تھا۔ جب تک پور* تک رسائی اوکھی تھی، اس کی قدر بھی خوب تھی۔

پھر نیٹ کیفے کے مالکان نے شئیرڈ ڈرائیو میں ٹوٹے رکھنے شروع کر دیے۔ دوسری جانب ایم آئی آر سی وغیرہ پر خچر کے روبوٹک بچے بوٹس آگئے۔ خچر کے روبوٹک بچوں سے کچھ یوتھیے بوٹس یاد آگئے جو آج کل ٹویٹر پر افزائش نسل میں مصروف ہیں، بہرحال ٹوٹوں اور بوٹس کے باعث رسد و طلب کا فرق مٹتے مٹتے ایک دن ایسا بھی آیا کہ یہ دونوں مصارف کہیں دب کر رہ گئے اور انٹرنیٹ کا اصل استعمال شروع ہوا۔

اب حالات یہ ہیں کہ وہ انٹرنیٹ جو کبھی ڈائل اپ موڈیم یا کیبل نیٹ کی شکل میں عیاشی ہوا کرتا تھا، ایک آدھ رات پلینڈ آؤٹیج کی وجہ سے بند ہوجائے تو موبائل ڈیٹا شئیر کرنا پڑ جاتا ہے۔ ظاہر ہے، جب انٹرنیٹ کا درست استعمال شروع ہوا تو پھر ہر شعبے میں ہی اس سے مستفید ہوا جانے لگا۔ اخبار جو کبھی خرید کر پڑھنا بھی ایک سرگرمی ہوا کرتی تھی، اس کا اہتمام ختم ہونے لگا۔

مجھے یاد ہے پشاور صدر میں چھٹی والے دن ابا مرحوم چھ انڈے ایک ڈبل روٹی اور ایک عدد اخبار لانے کو بھیجا کرتے تھے۔ بھلا دور تھا۔ اولاد کو باہر بھیجنا عام سی بات ہوتی تھی۔ ادھر حالت یہ ہے کہ ارحم اب کہیں 13 برس کی عمر میں جا کر اکیلا پارک جانے کا حق حاصل کر پایا ہے، حالانکہ یہ میلبرن ہے، پشتہ خرہ بھی نہیں۔ اخبار، چھ انڈے اور ایک ڈبل روٹی واپس لا کر دی جاتی تو ناشتہ بنا کرتا جس دوران ابا مرحوم اخبار پڑھا کرتے۔

جب تک ناشتہ تیار ہوکر سامنے آتا، ابا مرحوم اخبار کا ایک آدھ صفحہ فارغ کر چکے ہوتے تھے یا میگزین والا حصہ ابھی ان کی نظروں سے دور ہوتا تھا۔ اب معاذ صاحب ڈبل روٹی انڈا یا انڈا پراٹھا لے کر بیٹھتے اور ساتھ اخبار پڑھنا شروع کر دیتے۔ یہ اس دور کی عیاشی ہوتی تھی۔ بغیر اخبار یا رسالے جو ناشتہ آدھے گھنٹے کا ہوتا وہ اخبار کے ساتھ ڈیڑھ دو گھنٹے تک چلا جاتا۔ مسئلہ وہی، رسد و طلب اور شاید کسی حد تک الفاظ کی بھوک۔

انٹرنیٹ نے ہر طرح سے دنیا کی ہئیت بدلی ہے۔ ویب براؤزر آپ کا اخبار بغیر ڈکار کھا پی کر ہضم کر چکا ہے۔ پاکستان میں غالباً جنگ نہایت اوائل میں انٹرنیٹ پر چلا گیا۔ آہستہ آہستہ باقی اخبار بھی انٹرنیٹ پر جاتے رہے۔ ویب سرور CapEx اور OpEx جیسے جیسے کم ہوتا رہا، ویسے ویسے یہ ہتھیار ہر دوسرا فرد اٹھانے لگا۔ سوشل نیٹ ورکس سے پہلے فورمز ہوا کرتے تھے جو وقت کے ساتھ ساتھ فیس بک کے گروپس اور پیجز کی شکل اختیار کر بیٹھے۔

اس سب کے دوران انفارمیشن جو کبھی ڈھونڈ کر پانی ہوتی تھی، اب اس قدر ٹکا سیر ہو چکی ہے کہ انفارمیشن کا انتخاب کر کے پیش کرنے کے لیے پورے پورے پلیٹ فارمز بن چکے ہیں۔ ایپل نیوز اس کی ایک مثال ہے جو خود کوئی خبر نہیں دیتا بلکہ دنیا جہاں سے خبریں اٹھا کر انہیں استعمال میں لاتا ہے۔ ظاہر ہے، بیشک ایپل اور گوگل دنیا بھر کے اخبارات یا نیوز چینلز سے خبریں اکٹھا کرنے کے اہل ہیں تاہم انسان ان سب کو محدود وقت میں پڑھنے کا اہل نہیں۔ گویا معاملہ آگیا انتخاب کا۔ اب دستیاب خبروں کے ذخیرے میں سے چند خبریں منتخب کر کے صارف کو پیش کرنی ہیں۔ ان خبروں کے انتخاب کا طریقہ کار کون منتخب کرے گا؟ یہ ایک غور طلب سوال تھا۔ پلیٹ فارم یہ کام کرے تو اس پر الزام لگ سکتا ہے کہ کسی ایک بیانیے کو فیور کر رہا ہے۔ تو یہ فیصلہ کہنے کی حد تک آگیا صارف پر۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی پلیٹ فارم پر بہترین اذہان کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ یوں پلیٹ فارم کی اجتماعی دانش، ملتان یا کراچی کی اجتماعی دانش سے بہتر ہوتی ہے۔ تو ان دانش مند دماغوں نے فیصلہ کیا کہ ٹھیک ہے، تمہیں سیاسی خبریں چاہیے ہیں تو ہم تمہیں سیاسی خبریں دے دیں گے۔ کھیل سے متعلق چاہیے تو وہ دے دیں گے۔ یعنی تم جو چاہو گے، ہم تمہیں وہی دیں گے۔ لو، اور انجوائے کرو۔ کیونکہ تم صارف جو ہو۔ پھر ہم نے بطور صارف، ان پلیٹ فارمز کو اپنے مصرف میں صرف کرنے کا آغاز کیا۔ آغاز تک تو سب ٹھیک تھا، مگر ایک دن اس استعمال پر ہم اس قدر زیادہ انحصار کرنے لگے کہ پلیٹ فارمز کو ہمارے صارف ہونے کے باوجود ہمارا مصرف سمجھ آنے لگا۔ اچھا۔۔ تو اتنے لوگ فلاں سے متعلق خبریں پڑھتے ہیں۔ اتنے لوگ فلاں کرکٹر میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

یہاں سے آگے کیمبرج انیلیٹیکا تک ایک الگ داستان ہے جو ہے تو دلچسپ مگر تکنیکی تفصیلات کی متقاضی ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ انٹرنیٹ پر ہمارا رویہ ایک طویل عرصے سے اپنے ٹریک ریکارڈ چھوڑے جا رہا تھا جسے آبزرو کر کے ہماری انتخاب کی صلاحیت کے ساتھ اس قدر کامیاب تجربے ہوچکے ہیں کہ اب ہم ڈیٹا کے غلام ہیں۔ ہم چاہیں یا ہم نہ چاہیں بہت مشکل ہے اس دستیاب ڈیٹا کے ساتھ انٹرایکشن پر ایک مخصوص پیٹرن کا ردعمل دینے پر۔ مثلاً بندر کے آگے ڈگڈگی بجانے پر بندر ناچنے لگتا ہے۔ بس ویسے ہی۔

اب ہم بیشک جتنا بھی اپنے آپ کو یقین دلا دیں کہ نہیں بھئی ہم بندر نہیں، اس کے باوجود کام ہم وہی کرتے ہیں، بس نوعیت الگ ہوتی ہے۔ بیشک، کچھ لوگ خود کو ڈیٹا کی اس غلامی سے کسی حد تک آزاد کروا لیتے ہیں مگر ان کی شرح مردوں میں خواتین کو اپنے برابر سمجھنے والوں جتنی یا مرد کو گھر کا واحد ذمہ دار نہ سمجھنے والی خواتین جتنی ہی ہوتی ہے۔ لب لباب یہ کہ ڈیٹا ہمارے انسانوں کو بندر کی طرح ڈگڈگی پر نچانے کا اہل رکھتا ہے۔

بالکل ویسے ہی جیسے کل ٹویٹر پر یوتھیوں کا بس نہیں چل رہا تھا کہ بڑے سے اے تھری سائز کاغذ پر نیٹ فلکس لکھیں اور اس کی بتی بنا کر مصرف میں لے آئیں۔ اندازہ لگائیں، نیٹ فلکس ایک ڈاکیومنٹری ریلیز کرے جس کا نام غالبا صابر شاکر یا ارشد شریف نے رکھا ہو جس کا اردو میں مطلب "پیچھے دروازہ بند کرو" نکلتا ہو اور جسے اچھے خاصے پڑھے لکھے چوت** دھڑا دھڑ شئیر کر کے خوشیوں بھرا ناچ ناچ رہے ہوں۔

اس قبیل کو ڈیٹا چاہیے، بس اپنی مرضی کا، اس سے بس اپنی مرضی کا مطلب نکلتا ہو۔ خداوند نیازی کے دشمنان پر الزام جاتا ہو اور خداوند نیازی و ہمنواؤں کی عظمت بیان ہوتی ہو۔ بس۔۔ کل ملا کر یہی چاہئے انہیں۔ ابے کچھ تو سوچ لیا کرو چو**وں۔۔ نیٹ فلکس ہے، حقیقت ٹی وی نہیں بھونسری والوں۔

خیر تو میں کہہ رہا تھا۔۔ سنجیدہ خیالات متروک ہوتے جا رہے ہیں۔ پتہ نہیں یہ المیہ ہے یا رب کا احسان، بہرحال ہے حقیقت۔