ابا مرحوم نے ویسے تو ہر گھر بہت چاہ سے بنایا مگر آخری گھر سے محبت کا عنصر کچھ زیادہ تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہاں رہائش پذیر ہونے سے کچھ عرصہ قبل ہی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ قریب ہر ویک اینڈ پشاور سے راولپنڈی آتے۔ مستریوں مزدوروں کی تمام پلٹن جو ان کے پرانے دوست بھی تھے، کے ساتھ گپیں لگاتے، انتظامی امور کا جائزہ لیتے اور پھر اتوار کی شام واپس چلے جاتے کیونکہ اگلے دن آفس ہوتا تھا۔
گھر بنانے کے دوران ہی ایک معاملہ بلکہ مسئلہ پانی کی بورنگ کا آیا۔ جو لوگ راولپنڈی میں گھر بنانے کا کارنامہ سرانجام دے چکے ہیں وہ شاید اس بات سے واقف ہوں کہ راولپنڈی کے کچھ یا شاید اکثر علاقوں میں بورنگ اللہ توکل ہوتی ہے۔ کسی کی زمین سے پہلی بورنگ میں پانی نکل آتا ہے تو کوئی کوئی آٹھویں بورنگ کے بعد بھی پانی کے ذخیرے سے محروم رہتا ہے۔ ہم چوہڑ چوک سے اندر جا کر جہاں گھر بنا رہے تھے وہاں بھی کچھ ایسا ہی معاملہ تھا۔ تب یعنی 2012 کے آس پاس بورنگ پر اچھا خاصہ خرچہ آجاتا تھا۔
باقی تمام شعبہ جاتِ زندگی کی طرح اس شعبے میں بھی سائینسی بنیادوں کی نسبت دم درود پر تکیہ کیا جانا نارمل سی بات تھی۔ ہمارے علاقے میں ایک صوفی صاحب کا چرچا تھا کہ ہاتھ میں دھاتی تار لے کر پلاٹ کا چکر لگاتے ہیں اور کسی خاص مقام پر دھاتی تار ہل جل کرکے زمین میں دو سو فٹ نیچے پانی کا پتہ بتا دیا کرتا ہے۔ میرا تعلق جیالوجی سے تو نہیں تھا البتہ ٹیلی کمیونیکیشن انجینئرنگ تک جتنی ایک فزکس میں پڑھ چکا تھا اس کے مطابق یہ گیدڑ سنگھی میری سمجھ سے باہر تھی۔ بہرحال، علاقے میں مزدوروں مستریوں اور گوانڈ کا peer pressure ٹھیک ٹھاک تھا لہٰذا ابا مرحوم نے بھی پانچ ہزار روپے ہدیے کے عوض صوفی چاچے کے دعا زدہ انٹینوں کی خدمات مستعار لے لیں۔
اب سین کچھ ایسا ہوا کہ ابا مرحوم گھر کے اندر داخل ہوتے ہی دائیں ہاتھ جہاں سیڑھیاں بننی تھیں، کے نیچے بورنگ کروانے میں دلچسپی رکھتے تھے کہ یہاں سے پانی نکل آئے تو کچھ آسانیاں ہوجائیں گی۔ صوفی چاچا جو آیا تو انہوں نے بتایا کہ ان کا اینٹینا اس مقام پر نہیں ہلا۔ چاچے نے بنیادوں کے بعد کمرے میں ڈلے گیڑے پر چکر لگائے، کوئی پینتالی منٹ گھومتا رہا، ساتھ زیرلب بڑبڑاتا رہا کچھ۔ جانے کوئی دعا پڑھ رہا تھا چاچا یا "ڑِنگ ڑَنگ ڑِنگ۔۔ ڑِنگ ڑَنگ ڑِنگ ڑَنگ ڑِنگ ڑِنگ ڑِنگ ڑَنگ ڑِنگ۔۔ ڑِنگ ڑَنگ ڑِنگ ڑِنگ" والا ایک دو تین گا رہا تھا واللہ اعلم۔ خیر چاچے نے آخر کار اندررررررر کہیں جا کر کچن کے پاس پانی کا مژدہ سنایا۔ بورنگ مشین یہاں تک لے جانے کے لیے ایک دیوار کا کچھ حصہ توڑنا پڑ رہا تھا۔
ہمارے گوانڈ میں ایک وہابی چاچا بھی مقیم تھے۔ اب جبکہ ابا مرحوم یہ دیوار توڑنے اور اپنی مرضی والے مقام سے بورنگ ہٹا کر اندر لے جانے پر اختلاف کا اظہار فرما رہے تھے، وہابی چاچے نے ان کا اختلاف یہ کہہ کر ختم زمین دوز کیا کہ نہیں یہ صوفی چاچا اللہ کا بڑا بندہ ہے، دعا بھی خوب کی اس نے، اینٹینا بھی ہلا تھا اس کا، وہیں بورنگ کرواؤ جہاں یہ کہہ رہا ہے۔ صوفی چاچے اور وہابی چاچے کا ساتھ مزدور مستری بھی دینے لگے کہ ہاں یہ درست بات ہے وہیں کرواؤ۔ ابا مرحوم نے ہاتھ کھڑے کرتے ہوئے یہ مطالبہ مان لیا۔ مزدوروں کی یونین نے البتہ ایک اور مطالبہ بھی کیا۔ کہا یہاں کالا بکرا قربان کرواؤ دیکھنا بورنگ کامیاب ہوجائے گی۔
اب ابا مرحوم کم و بیش میری ہی طرح کے موڈی ترنگ میں آکر فیصلہ کرنے والے انسان تھے۔ علامہ طالب جوہری کی مجلس بھی شوق سے سنتے، نعتیں بھی اور مولویوں کی شان میں فصیح و بلیغ ارشادات بھی، مگر ددھیال تھا بہرحال وہابی جھکاؤ رکھنے والا۔ ساتھ ہی ساتھ وہابی چاچے نے کالے بکرے کی قربانی کے خلاف مشورہ بھی دیا ہوا تھا۔ مزیدبرآں، ایک بورنگ کا خرچہ پہلے ہی پھر صوفی چاچے کا اینٹینا بل اور اب بکرا سیاہ بھی۔۔ تو ابا نے فیصلہ کیا کہ اس لمحے وہابی ہوجانا بہتر ہے۔ پس فیصلہ یہی ہوا کہ وڑو سارے، کام پہ لگو۔ کوئی بکرا وکرا نہیں کٹ ہو رہا۔
خیر اللہ اللہ کرکے بورنگ شروع ہوئی۔ پچاس فٹ۔ اسی فٹ۔ سو فٹ۔ ایک سو تیس فٹ۔ پانی کا کوئی نام و نشان نہیں۔ صوفی چاچا اس دوران چکر لگاتا رہا اور یقین دہانی کرواتا رہا ہے کہ نکلے گا نکلے گا، پانی تو نکلے گا۔ ہم بورنگ والے کا بل بڑھاتے رہے۔ ایک سو ستر فٹ، کوئی پانی نہیں۔ دو سو فٹ، کوئی پانی نہیں۔ یہاں سے آگے غالباً بورنگ والے کو بھی ہم پر ترس آگیا۔ اس نے بہتیرا سمجھایا کہ مت جاؤ آگے مگر صوفی چاچا اپنی ناموس کی خاطر کوئی ڈھائی سو فٹ یا شاید کچھ اوپر تک گڑھا کروانے تک کامیاب رہا۔
اور پھر ہم نے fallacy of sunken ship سے بری الذمہ ہوتے ہوئے بادل نخواستہ بورنگ کو ناکام ڈیکلئیر کرنے کا اعلان کر دیا۔
ہفتہ دس دن ہمیں اس دکھ سے نبرد آزما ہونے میں لگا۔ اور پھر دوسری بورنگ کا فیصلہ ہوا۔ عین اسی جگہ جہاں ابا مرحوم بورنگ کروانا چاہ رہے تھے۔ گھر داخل ہوتے ہی دائیں ہاتھ پر۔
اس بار صوفی چاچے کو ویسے ہی سائیڈ لائن کرایا گیا جیسے نو مئی کے بعد عمران خان کو میڈیا سے باہر پھینکا گیا۔ اب کے البتہ ایک نیا قضیہ سامنے تھا۔ مزدوروں کی یونین اور وہابی چاچا آمنے سامنے تھے۔ ایک فریق کا مطالبہ تھا کہ کالا بکرا قربان کیا جائے۔ دوسرے فریق کا کہنا تھا کہ یہ گناہ ہوگا۔ میں یہاں ایک یاد دہانی کرواتا چلوں کہ پلاٹ اور اس پر تعمیر ہونے والا گھر ہماری اماں کے نام تھا، ناکہ کسی ایک فریق کے۔ اس کے باوجود اچھی خاصی بحث رہی کہ کالا بکرا کٹے گا یا نہیں۔ مزدور یونین کو گوشت سے شغف تھا تو وہابی چاچے کو مار و نارِ جہنم کے مسائل۔
آخر کار صدیقی صاحب مرحوم نے اپنے اندر کا وہابی ٹائم آؤٹ کروایا، اور ایک جلال کے ساتھ فیصلہ صادر کیا کہ بکرا تو قربان ہوگا۔ اور پھر بکرا قربان ہوا۔ گوشت بانٹ دیا گیا۔
اس واقعے کے سال بعد تک میں وہیں مقیم رہا، اور پھر دبئی چلا گیا۔ جب تک میں وہاں رہا اینٹینے والا صوفی چاچا اکثر پلاٹوں میں دو دھاتی تاریں لیے پھرتا نظر آیا کرتا۔ باوجود اس کے کہ ہم نے اپنا تجربہ آس پاس جس جس سے ممکن تھا شئیر کیا، چاچے کی دیہاڑی البتہ اسی ہنر سے جڑی رہی۔ زیر لب بڑبڑاتے ہوئے پلاٹ میں یہاں سے وہاں پھرنا اور پھر کہیں اینٹینا ہلا دینا۔ بھئی ہنر ہنر ہے، دیہاڑی دیہاڑی ہے اور رزق رزق۔
واللہ خیر الرازقین۔۔
ابا مرحوم نے ارادہ کیا تھا کہ اگر پانی نکل آیا تو علاقے کے جو لوگ ٹینکر مافیا کو افورڈ نہیں کر سکتے انہیں پانی دستیاب ہوا کرے گا۔
ابا مرحوم کی جہاں بورنگ کی خواہش تھی عین وہیں بکرا قربان ہوا اور عین وہیں سے پانی نکلا۔ شاید ڈیڑھ سو فٹ کے آس پاس کہیں۔ پانی بھی نکلا تو الحمد للہ خوب۔ جہاں لوگ پندرہ منٹ موٹر چلاتے ہیں وہاں ہماری طرف گھنٹے گھنٹے پانی نکلا، جہاں سے آج بھی گوانڈیوں اور دیگر ضرورت مندوں کو روزانہ کی بنیاد پر پانی دینے کا سلسلہ جاری ہے۔
پچھلی بار 2020 میں گھر گیا تھا۔ صوفی چاچا نظر نہیں آئے۔ وہابی چاچا آج بھی وہیں ہیں۔ بورنگ آج بھی سیٹ ہے، الا یہ کہ ایک پڑوسی نے موٹر رگڑنے کی بھرپور کوشش کی جس کے باعث کچھ عرصہ پانی بند رہا۔ پھر چالو ہوگیا۔