ہم نارمز کی بات سے شروع کرتے ہیں۔ نارمز کی اہمیت سے انکار کیا جاسکتا ہے، انکار افکار کے وجود کی نفی بہرحال نہیں ہو سکتا۔ نارمز آپ کی میری ہم سب کی زندگی پر شدید اثرانداز ہوتے ہیں۔ پھر۔۔ ہم میں سے کچھ نارمز کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ نارمز۔۔ جو مجموعی طور پر انسانیت کی بھلائی کے لیے وضع ہوتے ہیں، مگر پھر خود اپنے موجود ہونے کی دلیل کے خلاف چل پڑتے ہیں۔
ویسے ہی۔۔ جیسے انسان اور انسانیت۔۔ کبھی نیوکلیئر ہتھیاروں کے چکر میں تو کبھی سزائے موت کے چکر میں۔ زندگی بہرحال گرے ایریا کا نام ہے۔
تو بات ہو رہی تھی نارمز کی۔
تخصیصات کو ایک جانب رکھیں تو زندگی کا سبق یہ ہے کہ والدین کا شفیق ہونا ایک نارم ہے۔ بس اسی شفقت کے تحت ہمارے والد نے اپنی زندگی کی کمائی یعنی ایک عدد گھر کو صرف اس لیے بیچ ڈالا کہ اس وقت یعنی آج سے 23 سال پہلے سنہ 2000 میں ایڈورڈز کالج پشاور کی 15000 داخلہ فیس دینے کے لیے جس میں جانا ہماری خواہش تھی، پیسے نہیں تھے۔ پندرہ ہزار اس وقت ایک رقم تھی۔ بدقسمتی سے اس وقت یہ رقم کوئی قرض دینے کو بھی تیار نہ تھا۔
دنیا ہے صاحب۔ دنیا کے اپنے نارمز ہوتے ہیں۔ قرض دینا اگر ایک نارم ہے تو قرض دینے سے انکار کرنا اس سے بڑا نارم۔
ابا حضور کی قربانی کو یاد کرکے آج ان کا احسان مند ہونا، بہرحال مجھے اس میں خود پر پیار آتا ہے۔
اور ابا پر آنسو۔
اپنا دو منزلہ گھر بیچ کر اسی گھر میں کرائے پر رہے۔ کچھ عرصہ مالک مکان کے بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر کرائے میں ڈسکاؤنٹ انجوائے کیا۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو میری پہلی کمائی میٹرک میں شروع ہوچکی تھی۔
مگر پھر مالک مکان کی اہلیہ کو مسئلہ یہ ہوا کہ میں ان کے شوہر نامدار و کامدار کو ان کے منع کرنے کے باوجود بھی آخر یہ کیوں بتا دیتا ہوں کہ بچے ہوم ورک کو لے کر جھوٹ بولتے ہیں۔ سو معاملات زیادہ نہ چل پائے۔
گھر چھوڑ کر دوسرا گھر کرائے پر لینا پڑا۔ ابا مرحوم کی مردم شناسی اچھی تھی۔ مجھے مگر لگتا ہے کہ اماں کی مردم شناسی کہیں زیادہ اچھی ہے۔ تب بھی اچھی تھی، آج بھی اچھی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ اماں مجھے بہت اچھی طرح جانتی ہیں۔ بس اسی لیے ہمیں بہت سی باتیں بتانے یا سمجھنے کے لیے بہت سی باتیں کرنی ہی نہیں پڑتیں۔
ہم نے ایک اور گھر کرائے پر لیا۔ پشاور میں صمدوگڑھی اور بڈھنی پل کے بیچ کے علاقے میں کہیں۔ مجھے گلی کا نام ٹھیک سے یاد نہیں کیونکہ یہ تقریبا 2002 کی بات ہے۔ مالک مکان کا نام جو ہمیں بتایا گیا وہ تھا ذاکر خان۔ ذاکر خان کی کہانی یہ تھی کہ وہ اپنے والدین کا اکلوتا چشم و چراغ تھا، گو حالت اس کی نہ چشم ہونے کی تھی نہ چراغ ہونے کی۔ ایک عدد چرسی جو کسی وجہ سے ایک سال قید میں رہ کر آیا تھا اور باوجود اس کے کہ ماں اسے بچا سکتی تھی، اسے نہ بچایا گیا۔
ظاہر ہے یہ بات ہمیں گھر کرائے پر لینے تک معلوم نہ تھی۔ جب تک پتہ چلا دیر ہوچکی تھی۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ ذاکر خان کی چرس چھڑانے کے لیے دو مزید کام کیے گئے۔ پہلا کام یہ کہ اسے تبلیغ پر بھیج دیا گیا۔ دوسرا یہ کہ تبلیغ سے واپسی پر اس کی شادی کر دی گئی۔ باقی کا کام ذاکر خان خود کرنا جانتا تھا لہٰذا سال کے اندر ایک عدد بیٹا بھی ہوگیا۔ اس کا بیٹا انتہائی انتائی حسین اور کیوٹ بچہ تھا۔ اگر کسی کو سپرمین کارٹون کے آخر میں سپرمین کا بچپن یاد ہو بس ویسا ہی۔ شدھ نیلی آنکھیں، سفید رنگت اور گول مٹول۔
اب گھر کی سنیے۔ ایک تو موبائل سے پہلے دور کا یہ بڑا مسئلہ ہے۔ منظر کشی کرنا ضروری ہوجاتی ہے۔ خیر۔۔ اس دور اور اس علاقے میں گلیاں شاذ ہی پکی ملتی تھیں۔ اتفاق سے یہ گلی پکی تھی۔ مین سڑک جو بشیر آباد سے بڈھنی پل کی طرف جاتی تھی، کی سطح سی کافی نیچے واقع گلی تھی جس میں داخل ہوتے ہی بائیں ہاتھ چوتھا پانچواں گھر تھا۔ ساتھ کسی بینک کے ریٹائرڈ مینیجر مقیم تھے جن کے بچے ایک بار "گرمہ ڈونگہ شتا؟" یعنی "گرم ڈونگا ہے؟" جیسا سوال صبح صبح لے کر آئے۔ ہمیں رات کے کھانے پر سمجھ آئی Hot Pot مانگ رہے تھے۔
موٹی لوہے کی چادر سے بنا نیلے رنگ کا قلعہ نما دروازہ تھا۔ جس گلی میں گاڑی داخل مشکل سے ہوتی وہاں ہر گھر میں گاڑی کی جگہ رکھنا بہرحال دوراندیشی ہی تھی۔ گھر کے مرکزی دروازے کے ساتھ ہی بائیں جانب بیٹھک کا دروازہ تھا۔ اسی بیٹھک کا ایک دروازہ اندر کار پورچ کو بھی کھلتا تھا۔ اس کے آگے کچا کھلے آسمان تلے صحن۔ دائیں جانب باتھ روم۔ اس کے ساتھ کچن۔ پھر سیڑھیاں۔ کچن، سیڑھیوں کی عمودی جانب پہلا کمرا۔ اسی کے ساتھ دوسرا کمرہ۔
اور گھر ختم۔
چھت کا قبضہ ہمارے پاس تھا۔ یہ کرائے نامے پر لکھا ہوا تھا۔ اور مالک مکان کہاں رہتا تھا بھلا؟
ذاکر خان اپنی اماں /ابئی، بیگم شبانہ اور بیٹے کے ساتھ مرکزی دروازے سے متصل بیٹھک میں رہتا تھا۔ ذاکر دن بھر غائب ہوتا۔ گرمیوں میں یہ سفید رنگی خان لوگ ایک کمرے میں رہتے، وہیں کھانا بناتے اور وہ ایک کمرہ دوزخ بننے لگتا تو یہ لوگ بیٹھک کا وہ دروازہ کھول لیتے جو ہماری سائیڈ کھلتا۔ ہمیں بھی ترس آتا سو کچھ نہ کہتے۔
ان دنوں مجھے کوئی نہ کوئی جانور پالنے کا بہت شوق تھا۔ بچپن میں ہم نے کتے بہت پالے۔ بڑے ہوئے تو fan tails جنہیں غالباً لقے کہا جاتا ہے، ہمارے پاس رہے۔ اپنا گھر چھوڑا تو پچھلے صحن جو ہمیشہ خوبصورت آزاد فین ٹیل کبوتروں سے بھرا رہتا، کی قربانی دینی پڑی۔ تاہم نکلتے نکلتے بھی ایک جوڑا رہ ہی گیا تھا۔ فین ٹیلز کا یہ جوڑا کافی منفرد تھا۔ اس کا نر، سر تا پا سیاہ، اور بھرپور سیاہ تھا جبکہ مادہ تک سپن یعنی بھرپور سفید۔
اچھا فین ٹیلز ایک زمانے میں ہمارے پاس بھرے رہتے تھے اور اس دور میں بھی مکمل سیاہ، جس کی گردن بھی دم سے لگی ہو اور دم بھی ٹھیک ٹھاک پھیلی ہو اچھا خاصہ نایاب ہوا کرتا تھا۔ دوسرا مجھے ہمیشہ سے سیاہ اور کتھئی رنگ کے فین ٹیلز کی تلاش رہتی تھی کیونکہ بہت خوبصورت ہوتے تھے۔ یوں یہ دونوں ڈارلنگز شدید ترین پیارے تھے۔ ان کا دانہ پانی میرے ذمہ ہوا کرتا تھا۔ یہ دونوں انمول رتن ٹھیک ٹھاک بڑے پنجرے میں رہتے جو سیڑھیوں کے بالکل سامنے دوسری جانب پڑا رہتا۔ میں جب جب فارغ ہوتا تو انہیں باہر بھی نکال لیا کرتا۔
میں پہلے بتا چکا ہوں کہ گھر کی چھت کرائے نامے کے مطابق ہمارے مصرف میں تھی۔ اور چونکہ گھر کی چھت ہمارے قبضے میں رہتی لہٰذا ہم چھت پر تالہ لگانے میں حق بجانب تھے۔ ہم گھر میں قدم رنجہ ہوئے تو چھت کے دو بڑے استعمال معلوم ہوئے۔ دوسرا استعمال تو چھت پر کپڑے سکھانا تھا جو عام سی بات ہے۔ پہلا استعمال دلچسپ تھا۔ ہم گھر میں شفٹ ہوئے تو نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ مولوی ذاکر خان نے ہمیں بتایا کہ گھر کی بجلی رات میں مفت ہوتی ہے۔ استفسار پر ہمیں نہایت جانفشانی کے ساتھ ستاروں پہ کمند کی طرح تاروں پر کنڈا ڈالنے کا ڈیمو دیا گیا جو اس قدر خطرناک کام تھا کہ ہم نے انکار میں ہی عافیت جانی۔ مولوی ذاکر خان ہماری شرافت پر نالاں رہے تاہم ہم ایسا کوئی رسک لینے کو تیار نہ تھے۔
ذاکر خان کی بیوی پر ہمیں ترس آتا۔ ذاکر مار پیٹ بھی کرتا تھا اور گالیاں بھی خوب دیتا تھا۔ چیخ و پکار بھی کوئی عجب بات نہ تھی۔ یوں جس دن ذاکر خان کی بیگم نے چھت پر کپڑے لٹکانے کی اجازت چاہی تو ہم نے بلا چون و چراں دے دی۔ شبانہ کے پاس اپنے غم خوب ہوں گے۔ سو اکثر دو تین بار ایسا ہوا کہ کپڑے سکھانے گئی اور واپسی پر چھت کا دروازہ بند کیے بغیر چلی گئی۔ اس میں دو مسائل تھے۔ پہلا سیفٹی کا مسئلہ کیونکہ ان دنوں چھت پھلانگ کر دوسرے گھر پر لینڈ ہوتے ہوئے چوری چکاری کا خوف عام تھا۔
دوسرا مسئلہ تھا بلی کا۔
جاری۔۔