شبانہ چھت کا دروازہ دو تین بار کھلا چھوڑ چکی تھی۔ ان میں ایک بار بلی بھی نیچے تک پہنچ گئی بچت بس یہ ہوئی کہ ہم میں سے کسی نے دیکھ لیا۔ ہم نے ہمیشہ بلیوں کو پرندوں خاص کر کبوتروں کی بھیانک قسم کا دشمن پایا۔
اس دن اتوار تھا۔ ہر ویک اینڈ کی طرح ہماری اس روز بھی آنکھ کھلی۔ اٹھے، باہر نکلے تو دیکھا کہ دونوں دین ٹیل بے سدھ پڑے ہیں۔ قریب جا کر دیکھا تو معلوم ہوا بلی دونوں کا خون پی کر دفعان ہوچکی ہے۔ کچھ دیر تک تو مجھے سمجھ ہی نہیں آئی۔ اور پھر جب سمجھ آئی تو صدمے اور غصے سے مجھ سے کچھ بولا ہی نہ گیا۔ غصے میں اوپر چھت کی طرف گیا تو دیکھا کہ دروازہ کھلا ہوا تھا۔
اور دروازہ ہمیشہ کی طرح ذاکر کی اہلیہ ہی کھلا چھوڑ کر آئی تھی۔
پہلے تو بہے میرے آنسو۔ مطلب اس عمر میں اولاد تو ہوتی نہیں۔ پالتو جانور ہی اولاد ہوتے ہیں۔ پھر قیمتی اور انمول قسم کے جانور۔ ہاتھ سے دانہ کھانے والے جانور۔
کچھ دیر بعد میں خوب چیخا چلایا اور پھر گھر میں موجود سب سے بڑا تالہ لے جا کر اوپر چھت کے دروازے پر لگا دیا۔ اس کے ساتھ ہی ذاکر کو آگاہ کر دیا گیا کہ اب سے ہمارے تمہارے سفارتی تعلقات ختم ہیں۔ مزید برآں چھت تک رسائی بھی آج سے ختم۔
اس پر چڑھی ذاکر خان کو تپ۔ میں اور ابا مرحوم باہر بات کر رہے تھے اس سے۔ اچانک اس نے گالی دی اور پھر بس۔۔ میں نے اور ابا نے مل کر اسے کوٹا، خوب کوٹا، ٹھیک ٹھاک کوٹا۔ یہ سب بس اچانک ہوگیا۔ بات بھی اچانک بڑھی اور ہم نے اسے دھونا بھی اچانک شروع کر دیا۔ ہاں دھویا ٹھیک ٹھاک۔
جب تک محلے والوں نے بیچ بچاؤ کروایا تب تک زخمی ہو چکا تھا ذاکر۔
اور پھر اس نے وہ حرکت کی کہ ہماری ہاتھ میں آگئی۔
بھائی جب خوب پٹ چکا تو اچانک سے کہتا ہے۔۔
"زہ کڈا اوچتوم۔۔ ذان بچ کا"
اور یہ کہہ کر ذاکر خان مع اہل و عیال غائب۔۔
یعنی خان صاحب دھمکی دے کر گئے تھے کہ میں اپنے بیوی بچوں کو محفوظ مقام پر لے جا رہا ہوں، اب ہو سکے تو خود کو بچا لو مجھ سے۔
ابے یارررررر۔۔ یہ بیٹھے بیٹھے کون سی ذلالت میں پھنس گئے۔
اب گھر میں بڑا بیٹا جوان ہو، غصے کا تیز ہو، ابے کے ساتھ مل کر حال ہی میں قید سے باہر آئے مجرم کو پیٹ چکا ہو، اور وہ ایسی دھمکی لگا جائے تو والدین کو پریشانی ہونی برحق ہے۔ میرے وہی احمقوں والے ڈھاک کے تین پات کہ نہیں یہ سامنے تو آئے میں دیکھتا ہوں اسے۔ ابا کہیں بیٹا اس کی تو کوئی زندگی نہیں، اس نے فائر بھی مار دیا تو نقصان ہمارا ہوگا۔
بات ٹھیک تھی، گو اس وقت مغز میں گھس نہ پاتی تھی۔ ابا مرحوم کو اچھے سے سمجھ آرہی تھی۔
خیر جس دن یہ سب ہوا اسی دن محلے کے معززین بھی جمع ہو چکے تھے۔ یہاں ایک بات پھر سے واضح کرتا چلوں کہ ہم لوگ نسلاً پٹھان نہیں۔ اندرون شہر پشاور میں ہندکو سپیکنگ عوام بہت ہے جبکہ پشاور کے مضافاتی علاقے میں گاؤں دیہات سے نقل مکانی کرکے شہر آنے والے خالصتا پشتون زیادہ۔ بہت سادہ سی بات ہے، جہاں تعلیم کم ہوگی وہاں قبائلی تعصبات قدرے زیادہ ہوں گے، گو کراچی میں تعلیم یافتہ تعصب بھی میں دیکھ چکا ہوں پھر بھی، قصہ مختصر، چونکہ ہم نسلا پشتون نہیں تھے لہٰذا ہمیں ایلین سمجھا جانا ایک عام سی بات تھی۔
پہلے پہل ہمیں خوشی ہوئی کہ محلے کے معززین جن میں تمام باریش حضرات شامل تھے، یقیناً انصاف پر مبنی فیصلہ کریں گے۔ ہمارا مطالبہ تھا کہ اس گھر میں رہنا اب ممکن نہیں رہا لہٰذا ہمیں ہمارا سیکیورٹی ڈیپازٹ واپس کیا جائے، ہم رواں ماہ جس کا کرایہ ہم دے چکے ہیں، کے آخر تک یہاں سے کہیں اور نکل جائیں گے۔ مالک مکان جو خود تو حاضری دینے سے اجتناب برت رہا تھا، اپنی پراکسیوں کے ذریعے اس بات پر مصر تھا کہ نہیں کوئی سیکیورٹی ڈیپازٹ نہیں اور یہ فورا گھر خالی کریں۔ چاہتے تو ابا مرحوم بھی یہی تھے کہ جلد از جلد یہاں سے نکلا جائے کیونکہ بہرحال اب رسک ہے تاہم رقم مساعی دو تین کرائے غصب ہوجاتی۔
الحمد للّٰہ، ثم الحمد للہ معززینِ علاقہ نے دو گھنٹے جرگے میں معاملات پر غور و فکرکے بعد "انصاف" پر مبنی فیصلہ کیا کہ کوئی سیکیورٹی ڈیپازٹ واپس نہیں ملے گا۔ مزید برآں ہمیں ایک ہفتے کے اندر اندر گھر خالی کرنا ہے۔ اس فیصلے سے مجھے نوے کی دہائی کے مشہور ڈرامہ سیریل "با ادب با ملاحظہ ہوشیار" کے قاسم جلالی کا مشہور زمانہ ڈائیلاگ یاد آجاتا ہے۔۔
"انصاف ہوگا۔۔ ضرور ہوگا"
اور اس کے بعد ثاقب نثاری انصاف پر مبنی فیصلہ۔
جان بچی سو لاکھوں پائے اور مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق ہمارے پاس منصفین کے انصاف پر مبنی یہ فیصلہ ماننے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ اس وقت تک ہم محلہ نور الاسلام، شاہین بازار پشاور میں پاکستان بننے سے پہلے کا ایک عدد نہایت قدیم اور مخدوش حال گھر خرید چکے تھے جسے مسمار کرکے نئے سرے سے بنانا مقصود تھا۔ چھوٹی سی زمین تھی جس کے ساتھ چھ گھروں کی سرحدیں لگتی تھیں۔ ایک جوان کے بچے نے تو اپنے گھر کی دیوار بنانے کی زحمت بھی نہیں کی، ہماری دیوار پر ہی لینٹر ڈال دیا جس کا انکشاف تب ہوا کہ دیوار گرانی شروع کی اور اگلے کی چھت انچ ایک نیچے سرک گئی۔ پھر پہلے اس کی دیوار بنوائی پھر اپنی۔ ایک جانب ایک طاق تھا۔ غالباً یہ مندر والا حصہ ہوتا ہوگا کسی دور میں۔ طاق گرایا تو دوسری جانب پڑوسیوں کی لڑکیاں نظر آنے لگیں۔ یہ ایک الگ ہی کہانی ہے۔ اندرون شہر میں گھر گرا کر دوبارہ بنانا ایک داستان ہے۔ اس علاقے میں ڈیڑھ دو کلومیٹر تک کوئی ٹرالی نہیں آسکتی تھی۔ لہٰذا ڈیڑھ دو کلومیٹر دور مٹیریل ڈالا جاتا اور وہاں سے گدھوں پر لاد کر بشکریہ انجمن خرکارانِ پشور، گھر تک لایا جاتا۔ خیر یہ قصے پھر کبھی سہی۔
ذاکر خان کا گھر چھوڑ کر ہم نے شاہین بازار سے اوپر محلہ سیٹھیان کی جانب جاتے ہوئے ایک اور گھر کرائے پر لیا۔ تب مجبوری تھی کہ ایک ہفتے کے اندر اندر گھر ملنا بذات خود ایک نعمت تھی۔ یہ گھر بھی ایک کہانی ہی تھا۔ یہ پرانے زمانے کی حویلی کی طرز پر بنا ہوا تھا۔ یعنی درمیان سے سب کھلا ہوا اور چاروں طرف کمرے ہی کمرے۔ اس گھر کی چھت لکڑی کی تھی۔ گھر کرائے پر لے لیا تو باہر کریانے والے نے بتایا کہ اس گھر کی چھت میں ایک بہت بڑا سانپ بھی رہتا ہے۔
وڑ گئے بھئی۔ سالا کہیں تو آرام سکون آجائے۔۔
مجھے یاد نہیں ہم اس گھر میں کتنا عرصہ رہے۔ شاید سال سے کچھ کم، جتنے عرصے ہمارا شاہین بازار والا گھر بن کر تیار ہوا۔ یہ گھر بھی ہم سب گھر والوں نے مل کر بہت دل سے بنایا تھا۔ گراؤنڈ فلور پر ایک کمرہ ڈرائینگ روم۔ فرسٹ فلور پر کچن اور اماں ابا کا کمرہ۔ سیکنڈ فلور پر ہم بچوں کا۔
مگر پھر کچھ ہی عرصے بعد ہم نے کراچی موو کرنے کا فیصلہ کیا، جس کے چکر میں یہ گھر بھی بیچنا پڑا۔ ہاں یہ گھر چھوڑ کر جاتے بھی آنکھوں میں آنسو تھے۔ خوشی تھی کہ کراچی جائیں گے سب رشتہ داروں کے ساتھ مل کر رہیں گے۔
کراچی نقل مکانی کے پراجیکٹ میں بھی الحمد للہ ممانی دردانہ اور ماموں ثقلین نے اپنی بھرپور طریقے سے پیش کرتے ہوئے وہ پراجیکٹ شروع ہوتے ہی کھود دیا۔ اس دوران ان کا تو نقصان نہ ہوا، مجھ سے چھوٹا بھائی رل کر رہ گیا کیونکہ اس کی انٹر ریجسٹریشن ہم پشاور سے کراچی منتقل کر چکے تھے جہاں سے واپسی تین سال سے پہلے ممکن نہیں تھی۔ دوسرا نقصان یہ کہ وہ گھر جو ہم سب نے بہت پیار سے مل جل کر بنایا تھا، وہ بیچنا پڑا۔
اس پر تفصیل پھر کسی دن رشتہ دار 64-65 سیریز کے کسی اور حصے میں۔ فی الوقت محلے دار 64-65 پر اکتفاء کیجئے۔
بات ہو رہی تھی نارمز کی۔ تخصیصات کو ایک جانب رکھیں تو زندگی کا سبق یہ ہے کہ والدین کا شفیق ہونا ایک نارم ہے۔ رشتہ داروں اور محلے داروں کا 64-65 ہونا ایک اور نارم ہے۔
(نوٹ: ممانی دردانہ جن تک یہ تحریر ضرور پہنچے گی، اور پھر وہ دانت بھینچتے اپنے "سنیں" کو سنائیں گی، کو براہ راست اور ان کے توسط سے ماموں ثقلین کو پیغام۔۔ یہ آخری سطور منجھلی انگل سے رقم کی گئی ہیں)