1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. معاذ بن محمود/
  4. نیا کے پی کے، مضبوط ادارے اور پھٹیچر کھلاڑی

نیا کے پی کے، مضبوط ادارے اور پھٹیچر کھلاڑی

جنرل الیکشن 2013 کے نتیجے خان صاحب کسی پرانے جوہڑ میں تازے پانی کی طرح سیاسی منظر نامے پہ ابھرتے دکھائی دیے۔ خیبر پختونخواہ کا غیر پختون ڈومیسائیل ہولڈر ہونے کے ناطے کم از کم مجھے مقامی و ملکی سیاسی کینوس پہ ڈرامائی تبدیلی کی امید تھی۔ 2013 جون میں والد صاحب کی وفات پہ امارات سے پاکستان، پشاور میں عام حالات سے زیادہ وقت گزارنا پڑا۔ گلبرگ پشاور میں ایک ہڑبونگ کا سا سماں ہوتا تھا جہاں کچرے کے ڈھیر، بےہنگم ٹریفک اور دھول مٹی عام تھی۔ خان صاحب سے امیدیں تھیں لیکن یہ بھی اندازہ تھا کہ کوئی قابل ذکر کام دکھائی دینے میں وقت لگے گا۔ دو چار پانچ سال نہیں شاید تیس چالیس سال میں کچھ نتیجہ دکھائی دے۔

سال 2014 آیا اور ایک بار پھر پشاور کا چکر لگا۔ والد صاحب کی قبر پہ حاضری دیتے ہوے پشاور کو بعینہ ویسا ہی پایا جیسا چھوڑ کہ گئے تھے۔ جی ٹی روڈ سے پشاور داخل ہوتے ہی ایک نئی سڑک یا موجودہ سڑک میں توسیع کی ضرورت محسوس ہوئی لیکن امید تھی کہ خان صاحب کچھ کر کے ضرور دکھائیں گے۔ ایک سیاسی جماعت جسے بہت محنت کے بعد صوبائی حکومت ملی ہے وہ اپنی مدت حکومت کے اختتام تک صوبے کو واقعی رول ماڈل بنا کے ہی جائے گی کیونکہ ہم نے سنا ہے کہ عوامی امیدوں کو پورا کرنے میں ہی کامیابی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ قومی افق پہ خان صاحب 2014 میں میاں صاحب کی لنگی کے پیچھے ہی پڑے ہوے تھے۔

اگلے سال 2015 میں پھر پشاور کا چکر لگا۔ اب کی بار پولیس کو نئے کپڑے اور گاڑیاں استعمال کرتے پایا۔ کسی حد تک کہیں نا کہیں جدت پسند آئی لیکن شہر کا حال وہی۔ جی ٹی روڈ ہو یا تہکال، صدر یا گلبرگ بالکل وہی جو 2013 کا نقشہ تھا۔ پولیس کے بارے میں اچھی اچھی باتیں سنیں مگر صوبے کی ننیانوے فیصد عوام کی طرح ہم بھی سفید پوش طبقے سے تعلق رکھتے تھے لہٰزا پولیس سے واسطہ نہ پڑ سکا۔ ایک بات البتہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال جانا پڑا جہاں Queue Management System کے ہوتے ہوے بھی ٹیسٹ رزلٹ کے لیے ایک جلوس سے گزر کے جانا پڑا البتہ شجر سے پیوستہ رہنے پہ اکتفا کرنا پڑا۔ عام آدمی کے پاس صبر کے سوا ویسے بھی کوئی چارہ نہیں ہوا کرتا۔

آخری بار پشاور 2016 میں جانا ہوا جب شاہ جی کے مشورے پر پاسپورٹ Renew کرنے کے لیے پشاور آفس گیا۔ شاہ جی تحریک انصاف کے Die Hard پنکھے ہیں۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ پاسپورٹ آفس سے راشی والمرتشی کو بھگانے میں عمران خان کا کتنا بڑا کردار رہا۔ واقعتاً میرا سارا کام کل 20 منٹ میں پورا ہوا۔ واپسی پہ شاہ جی کو یاد دہانی کرائی کہ شاہ جی پاسپورٹ آفس چوہدری نثار کی براہ راست کاوش ڈیوٹی میں آتا ہے۔ اس کے بعد شاہ جی ہمیں ڈرائیونگ لائسنس کے Renewal میں جدت سمجھاتے رہے۔ جب تک وہ اس موضوع پہ بات کرتے رہے میں صرف اتنا سوچتا رہا کہ پشاور کی ٹریفک میں لین کی پابندی کا خیال رکھنا صرف عوام کی ذمہ داری کے یا پولیس کی بھی۔

خان صاحب کا قومی اداروں کی مظبوطی کے لیے کردار، قومی اداروں، حکومتی جماعتوں اور اپوزیشن کی اکثریت کو چھوڑ کر ہر بندہ ماننے پہ مجبور ہے۔ سب کو خوشی ہے کہ ایک شخص ایسا ہے جو سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر اداروں کی مظبوطی کی بات کرتا ہے۔ چند شرپسندوں نے خان صاحب کی یہ خوبصورت تصویر پاکستان ٹیلی وژن کے دفتر پہ حملہ کر کے خراب کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکے کیونکہ بقول تحریک انصاف وہ پٹواری تھے۔ خان صاحب خود الیکشن کمیشن کی تعریفوں میں زمین آسمان ملاتے رہے تاکہ ادارے مظبوط ہو سکیں۔ توہین عدالت کا سامنا کرنے پر غیر مشروط معافی مانگنے والے خان صاحب نے اؤے افتخار چوہدری کہنے کا موقع ملتے ہی اپنے انڈر وئیر کا برانڈ سب کے سامنے کر دیا۔ عدالتوں کی مدح سرائی میں کبھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ جب جب فیصلہ ان کے حق میں آیا بھرپور عدالتی حمایت کا ثبوت دیا۔ ویسے بھی خان صاحب کے خلاف فیصلہ کرنے والی عدالتیں بکاؤ ہوتی ہیں اور وہ اداروں کا حصہ نہیں ہوتیں۔ خان صاحب کی صوبائی حکومت اپنے دور میں نیب سے عشق و معشوقی میں مصروف رہیں۔ خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت کی جانب سے اداروں کا احترام اتنا تھا کہ بینک آف خیبر کی طرف سے پرویز خٹک کے خاندان پہ الزام آنے کاُجواب بینک کے چئیرمین کو فارغ کرکے دیا گیا۔ اداروں کی مضبوطی کے لیے ہی خان صاحب نے منتخب ایوان کو "جعلی اسمبلی" کی ٹرافی عطا فرمائی اور بعد ازاں اس جعلی اسمبلی سے اصلی تنخواہیں مراعات سمیت جیب میں ڈالیں۔ پولیس کے وقار کی سربلندی کے لیے خان صاحب نے لاکھوں کے مجمعے کے سامنے آئی جی پولیس کو اپنے ہاتھ سے پھانسی دے کر سرخرو کرنے کا اعلان کیا۔

غرضیکہ اداروں کی مضبوطی کے لیے خان صاحب کی قربانیاں لاتعداد ہیں۔ ماضی بعید کی طرح ماضی قریب میں خان صاحب نے پاکستان سوپر لیگ کی شان میں باقاعدہ کئی "مختصر" ہجو بیان کیں۔ قارئین کے قیمتی وقت کو مدنظر رکھتے ہوے یہ ہجو twitter پلیٹفارم پہ tweets کی شکل میں شائع کی گئیں۔ بہادر کپتان اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا۔ یاد دہانی کے لیے: کپتان نے اپنے دھرنے کے دوران انتہاء پسندوں کی دھمکیوں کے باوجود قوم میں بہادری کا جزبہ سربلند رکھا کیونکہ معاملہ کرسی کا تھا جس کے بغیر حضرت عمر والا مثالی معاشرہ قائم نہیں ہو سکتا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کپتان قومی حمیت کے معاملے میں بھی بہادری کا درس دے کیونکہ کپتان اور صرف کپتان جانتا ہے کہ ہوش اور جوش کا استعمال کہاں کرنا ہے۔

کرسی کے حصول کے لیے نوجوانوں کے غبارے میں جوش کی ہوا بھرنا لازم تھا سو ایسا ہی کیا گیا۔ بیشک یہ دور جدید کا جدید جہاد ہی تو تھا۔ آج جب پاکستان میں کرکٹ کی واپسی پہ بات آئی تو کپتان کے بقول یہ وقت بھی بھلا کوئی جوش دکھانے کا ہے؟ یہاں ہوش سے کام لینا ہو گا۔ ہمیں کیون پیٹرسن جیسے "نان پھٹیچر" اور گوری چمڑی والے دیگر افضل من الا شرف النان پھٹیچر مخلوقات کو بتانا ہوگا کہ پاکستان کرکٹ کے لیے محفوظ ملک نہیں۔ کپتان نے اپنے بیانات سے ثابت کیا کہ دہشتگرد بہت مضبوط ہیں لہٰزا ابھی ہمارا ملک ابھی کرکٹ کی واپسی کے لیے تیار نہیں۔

کپتان کی جانب سے پرویز خٹک کو شوکاز نوٹس بھجوانا چاہیے کہ اس نے پی ایس ایل فائینل کے حق میں بیان کیوں دیا؟ آخرکار کیونکر پشاور کے باسی پشاور ظلمی کی جیت پہ فائرنگ کرتے رہے؟ شاہد آفریدی بھی نجم سیٹھی کے اس چھتیسویں پنکچر کا آلۂ کار بن گیا اور اس نے غیر ملکی کھلاڑیوں کو پاکستان میں کھیلنے کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔ کپتان صحیح کہتا کے۔ یہ ڈیرل سمی پھٹیچر کھلاڑی ہی تو تھا۔ کیا ہوا جو اس نے دو ورلڈ کپ جتوائے، اس سے بندہ کوئی کپتان جیسا کلاسیکل آل راؤنڈر تھوڑی ہی نا بنتا ہے کہ جو DL Method کے ذریعے پورا ایک ورلڈ کپ جیتا۔ ارے یہ ویون رچرڈز کو اگر سو رکنی بورڈ نے کرکٹر آف دی سنچری کا ایوارڈ دے بھی ڈالا تو کیا ہوا، یہ کالا کلوٹا کوچ ایسے ایوارڈ سے بدلتا تب بھی نہیں رہتا تو پھٹیچر کا پھٹیچر ہی ہے نا، جیسے وہ اپنا بابر غوری؟ یاد ہے نا؟ وہ بھی تو "کالا افریقی" تھا کپتان کے بقول؟