1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. معاذ بن محمود/
  4. اوریائی ڈائری کا ایک ورق

اوریائی ڈائری کا ایک ورق

صبح سے طبیعت میں کچھ کثافت سی محسوس کر رہا تھا۔ رات چھولے پٹھورے کھائے اور بوجہ رب کائنات کی جانب سے عطا کردہ ذائقوں کے، بسیار خوری کی حد کو چھو بیٹھا۔ شاید یہی وجہ رہی کہ رات عجیب بیہودہ سا خواب دیکھا۔ عوام الناس و ملحدین کو بتانے کا فائدہ نہیں کہ عریانیت کا الزام لگا دینا ہے۔ کیا دیکھتا ہوں کہ کل بائیس مرد ایک دوسرے کے ساتھ ایک شیطانی کھیل میں مصروف ہیں بدبخت ملحدین جسے کرکٹ کا نام دیتے ہیں۔ ایک نہایت ننگ قسم کی شکل کا سرخ گولا جسے ایک خاص قسم کے ڈنڈے سے مارے جا رہے ہیں، جس سے گماں ایسا کہ ناقابل بیان۔ استغفر اللہ۔ بائیس مرد اور ایسا گھناؤنہ کھیل۔ جب جب ان متعدد مردود مردوں کو بال ہاتھ میں تھامتے دیکھا بخدا عریانیت کا ایک عجیب سا احساس ہو کے رہا۔ صبح صادق تک شیاطین ساٹھ ہی گیندیں کرا پائے تھے مگر آنکھ کھل گئی کہ غسل واجب ہوچکا تھا۔ میں یہ سوال کرکٹ دیکھنے والوں سے پوچھتا ہوں کہ یہ کیسا واہیات کھیل ہے جسے فیملی کے ساتھ مل کے دیکھا جاتا ہے؟ آخر سیفما اور را کے ایجنٹ یہ عریانیت کب تک پھیلاتے رہیں گے؟

بہرحال، غسل کی نیت سے غسل خانے کی جانب چلا۔ مسواک کا جی چاہا مگر یہ کلموہے اس قدر لمبی اور موٹی مسواک بنانے لگے ہیں کہ ہاتھ میں پکڑتے ہی بچپن یاد آجاتا ہے۔ کئی ماہ ہوے کہ مسواک بوجہ عریانیت ترک کر چکا۔ انگریز نے ٹوتھ برش کی شکل جیسی بھی بنائی کم از کم اسے پکڑتے ہوے بچپن یاد نہیں آتا۔ ہر ماہ بشیرہ مائی تازہ نیم کے پتے دے جاتی ہے جسے ابال کے آمیزہ میں خود بناتا ہوں۔ ہفتے کہ ہفتے کپتان نصف حصہ ٹائیگر کو نہلانے کو لے جاتا ہے اور باقی آدھا دانت صاف کرنے کے کام آتا ہے۔ فرض غسل ہم لاڈو صابن سے کرتے ہیں جو کہ جلد کو کافی خشک اور کھردرا کر دیتا ہے۔ یہ ضروری ہے بصورت دیگر اپنے ہاتھ کو ہاتھ میں لیتے جوانی یاد آنے لگتی ہے اور یوں عبادت سے دل اچاٹ ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں عریانیت اس قدر سرائیت کر چکی ہے کہ ایسے ناشائستہ معاملات میں کسی کو عریانیت محسوس ہی نہیں ہوتی۔ میں شرطیہ کہتا ہوں، یہ میرے نام کی تاثیر نہیں بلکہ اسلامی شعائر کی خطرناک حد تک خلاف ورزی ہے جسے مجھ سمیت انصار عالم، زاید حامد جیسے کبار سے لے کر قدسیہ ممتاز اور زیتون بی بی جیسے صغار تک بخدا یہاں سینے کے بائیں جانب محسوس کرتے ہیں۔ معاز اللہ و لعنت اللہ علی الملحدین۔ مجھ جیسے پاکباز سے سینے کا ذکر کروا بیٹھے۔ لعنت ہو ان ذلیل روحوں پر۔

ناشتے کی میز پہ خانساماں نے آج ہھر ابلے ہوے انڈے رکھ دیے۔ بشیراں مائی سادہ سی دیہاتی خاتون ہے جس نے سادگی سادگی میں ایک بھرپور زندگی گزاری۔ بشیرہ مائی کا مجازی خدا اللہ دتہ ایک پکا مسلمان ہے جسے میں پچھلے پینتالیس سال سے جانتا ہوں۔ افزائشِ نسلِ محمدی کا جو سلسلہ ایک ولولے کے ساتھ اس نے تیس سال کی عمر میں شروع کیا وہ اب سے تین ماہ پہلے تک جاری و ساری ہے۔ بشیراں مائی اللہ سے خوب ڈرنے والی عورت ہے لہزا فرشتوں کی رات بھر لعنت سے خوب گھبراتی ہے۔ بقول اللہ دتہ، اللہ نے اسے اتنا تعاون کرنے والی بیوی عطا فرمائی ہے کہ دن بھر آٹھ مختلف گھروں میں کام کرنے کے بعد بھی شوہر کی کسی خواہش سے انکار نہیں کرتی۔ بس "کپڑہ پا کے سے جائیں" جتنا تعاون مانگتی ہے جو اللہ دتہ کے لیے زیادہ بڑا مسئلہ نہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ اتنی سادہ عورت اگر ابلے ہوے دو انڈے ناشتے میں رکھنے کی غلطی کر بیٹھے تو اسے معاف کر دینا چاہئے البتہ معاشرے کو میری تاکید خاص ہوتی ہے کہ ان لبرلز والی عادات و اطوار سے بچیے اور بوائلڈ ایگز سے دور رہیے۔ یہ فاشسٹ ان انڈوں کے ذریعے پورے کے پورے خاندانوں کے دماغ میں گند بھرتے ہیں۔

ناشتے کر کے فراغت ہوئی تو سوچا نئی گاڑی دیکھوں جو ایک جرنیل نے پرسوں ہدیہ کی۔ یوں تو میں تحفے تحائف سے دور بھاگتا ہوں البتہ اسلام کے نام پہ بننے والے اس ملک کی اعلی ترین افواج کی جانب سے کوئی تحفہ قبول نہ کرنا کفرانِ نعمت کے سوا کچھ نہیں کہلایا جا سکتا۔ گاڑی دیکھی تو جلال کا ایک سمندر تھا کہ امڈنے کو تھا۔ سرخ رنگ کی چم چم کرتی ہونڈا سوک میں گئیر کی شکل اس قدر گھٹیا اور بیہودہ تھی کہ ناقابل بیاں۔ عریانیت ہم سب کے گرد ایک عفریت بن کے جگہ بنا چکی ہے اور ہم ہیں کہ بے خبر۔ الحزر۔ الحزر۔ جرنیل صاحب کو پیغام بھیجا کہ ہمیں ہائی ایس چاہیے کہ اس کا گئیر سائیڈ پہ ہوتا ہے اور نسبتاً باریک شکل بھی۔

دوپہر کو قدسیہ ممتاز اور زیتون بی بی کے ساتھ میٹنگ تھی جس میں ہم نے یہود، ہنود و نصاریٰ کی جانب سے ہونے والی کاروائیوں کا جائزہ لیا۔ ہم نے انتہائی محنت سے محض دو گھنٹوں میں تین سو پچیاسی فیک فیس بک آئی ڈیز بنائیں جو اب سے انعام رانا، فرنود عالم، قاری حنیف ڈار اور امجد عباس جیسے دیسی لبرلز کے خلاف جہاد باالقلم کا فریضہ سرانجام دیں گی۔ آج سے پہلے تک میں مملکت سوریا میں امریکہ اور روس کے کفار کو ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں سمجھتا آیا مگر آج کی میٹنگ میں قدسیہ نے اپنے دھواں دھار دلائل سے مجھ پہ آشکار کیا کہ ہم صریح مغالطے میں زندہ رہتے آئے ہیں۔ روس اور امریکہ شام کے خلاف اتحادی ہیں جن کے مقابلے میں داعش کے مجاہدین سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے کھڑے ہیں۔ اپنی میٹنگ میں ہم نے ایاز نظامی کے ریمانڈ اور مقدمے پہ بھی بات کی اور فیصلہ کیا کہ مقدمہ جیتنے کے بعد میڈیا پہ کیا کہنا ہے۔

آج کا دن طبیعت پہ کافی گراں گزرا۔ اس قدر محنت کے بعد نیند کا آجانا ایک قدرتی عمل ہے۔ ارادہ تو محض قیلولے کا تھا مگر آنکھ لگ گئی اور اب کی بار ہم نے خواب میں ناہنجار تربوز و خربوزے دیکھے۔ کئی گھنٹوں تک ذہن کے پردہ سیمیں پہ چلنے والی یہ شیطانیت ہم نے انجوائے تو بہت کی مگر بہرحال تھی یہ عریانیت۔ شام کو اٹھ کر ہم سادہ پر شکوہ پھجے کے پائے کھا کر واپس بستر کی جانب چل پڑے۔ ذہن میں پچھلی رات کی کرکٹ بال اور شام کے تربوز خربوزے تازہ ہیں لیکن عریانیت کے خلاف جس جہاد کا اعادہ ہم کر چکے ہیں اس پہ ثابت قدم رہ کر دکھائیں گے۔

تمت باالخیر