1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. معاذ بن محمود/
  4. قوم پرستی کی دلدل

قوم پرستی کی دلدل

قوم پرستی ایک ایسی دلدل ہے جس میں آپ پھنسے ہوں اور اس کا ادراک ہوجائے تو یہ آپ کو مزید شدت سے کھینچنے لگتی ہے۔ کیسے؟

کوشش کرتا ہوں سمجھا سکوں۔

میں نسلاً مہاجر ہوں۔ کراچی میں پیدا ہوا تاہم ابا مرحوم کے پی اسمبلی میں سرکاری ملازم تھے سو زندگی پشاور میں گزری۔ کیسے گزری؟ ایسے کہ ہمیں فقط نان پشتو سپیکر ہونے کے باعث "پنجابی دال خور" کہا جاتا تھا۔ اچھا کوئی دال کھائے ساگ کھائے گوشت کھائے یا کیکڑے اس سے سروکار نہیں ہونا چاہیے تاہم مسئلہ اس حقارت سے ہوتا تھا جو لہجے میں ہمارے لیے عیاں ہوتی تھی۔ ظاہر ہے، سبھی ایسے نہ تھے۔ کئی بہت اچھی اور خیال رکھنے والی فیملیز بھی ہوا کرتی تھیں۔

اسی "پنجابی دال خور" کو لے کر بہت جھگڑے ہوئے بہت پھڈے ہوئے۔ بات گھر کے آگے ہجوم تک آئی۔ پولیس تھانوں تک گئی۔

اسی پنجابی دال خور کو لے کر میرے ابا مرحوم کو کے پی اسمبلی میں کافی حد تک ترقی سے دور رکھا گیا۔ اسی پنجابی دال خور کو لے کر ابا کی وفات کے بعد چھوٹے بھائی کو ابا کی ان سروس وفات کے بعد ان کی سیٹ پر ملازمت دینے سے انکار کیا گیا۔

ایک وقت تک یہ "پنجابی دال خور" والی حقارت بہت شدت سے محسوس ہوتی تھی۔ پھر دو میں سے ایک یا دونوں ہی باتیں ہوئیں۔

پہلا یہ احساس ہوا کہ قومیت کی بنیاد پر خود کو وکٹم سمجھ کر اسی پر پھنس جانا گویا زمانے کے آگے ہتھیار ڈالنے جیسا ہے۔ آپ ہار مان لیتے ہو۔ ٹھیک ہے شاید زیادتیوں کا بار منافرت پھیلانے والے پر تو ڈال ہی دیتے ہیں ساتھ ساتھ لاشعوری طور پر اپنی غلطیوں کا الزام بھی فریق ثانی پر جانا شروع ہوجاتا ہے۔ یا اپنی خود احتسابی کا وصف ٹرگر ہی نہیں ہو پاتا کیونکہ "میرے ساتھ تو ہمیشہ زیادتی ہی ہوتی ہے" کا احساس کچھ زیادہ ہی مضبوط ہوا پڑا ہوتا ہے۔ لہذا میں نے یہ وکٹم کارڈ قبول کرنے سے انکار کیا۔

اسی پشاور میں بہترین تعلیمی کیرئیر آگے یونیورسٹی تک لے کر چلا۔ یونیورسٹی میں میرا کلاس نمبر ون تھا کیونکہ میں ٹیلی کمیونیکیشن کی میرٹ لسٹ میں ٹاپ پر تھا۔ اسی کے پی سے میں نے نان پشتون ہوکر سکالر شپ پر ڈگری لی۔ اسی کے پی کے شاید ہزاروں لوگوں کے بیچوں بیچ سکالرشپ پکڑ کر وہاں سے آگے نکل گیا۔ اس کے بعد پیچھے مڑ کر دیکھا تو ان تعلقات کے لیے جو میں نے بنائے، پھر وہ چاہے پشاور ہو، رالپنڈی ہو، خوشاب ہو، کراچی ہو، دبئی ہو، عجمان ہو، ابو ظہبی ہو یا کوئی اور شہر۔

بات ختم۔

دوسری بات شاید یہ بھی ہے کہ یہ سب احساس ایک بہت بڑے احساس کے ساتھ نتھی ہیں اور وہ ہے مالی عدم استحکام۔ مثلاً میرا خیال ہے کہ اگر میں مدینہ کالونی پشاور جیسے مضافات میں رہنے کی بجائے ڈیفینس پشاور میں بڑا ہوتا تو وہاں بوجہ تعلیم کے اضافے اور جہالت کی کمی کے پنجابی دال خور کہنے والے کم ہوتے۔ لیکن میں بھلا ڈیفینس میں کیسے رہ سکتا تھا؟

اگر ابا مرحوم کرنل شرنل ہوتے یا پیٹرول پمپ یا فلور مل کے مالک ہوتے۔ میں جیسے جیسے مالی طور پر مستحکم ہوتا گیا میرے لیے وکٹم کارڈ کا معنی کم ہوتا گیا۔ میں تانگے میں آٹھ لوگوں کے ساتھ رائیڈ شئیر کرتا تھا تو مجھے پنجابی دال خور کہنے والے یا حقارت سے دیکھنے والے زیادہ تھے۔ اب میں اپنی گاڑی میں پشاور جاتا ہوں تو وہی حقارت دکھانے والے کم ملتے ہیں۔

انسانی معاشروں میں اقرباء پروری لازمی ہوتی ہے۔ یہ بات کوئی کوئی معاشرہ سمجھ پاتا ہے کہ diversity اور inclusion کے فائدے معاشرے کے اپنے لیے زیادہ ہوتے ہیں جبکہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر رہنے میں نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ یہاں کے چول دیسی نارمل آبادی سے دور ایک مسجد بنا کر اس کے ارد گرد اپنی کمیونٹی بنا لیتے ہیں۔ دوسروں کے نارمز جان نہیں پاتے اپنے نارمز سمجھا نہیں پاتے اور آخر میں جب بچہ گے یا لیسبین یا اپنی مرضی سے رشتے بناتا نکل آتا ہے تو ہائے میں مر گئی کہہ کر اپنی پرورش کا سقم دوسروں پر ڈالنے کے لیے سر ڈھونڈتے ہیں۔ یہ سب اسی ایک مسئلے کا بڑا وژن ہے جو کراچی میں سندھی فیملی یا سندھ میں مہاجر فیملی یا پشاور میں میری فیملی کے ساتھ تجربات سے شروع ہوتا ہے۔

خود کو سرائیکی یا پشتون یا پنجابی یا مہاجر بیشک سمجھیں تاہم سرائیکی یا پشتون یا پنجابی یا مہاجر وکٹم سمجھنا چھوڑ دیں۔ میرا ذاتی خیال ہے افاقہ ہوگا۔

باقی اختلاف آپ کا حق ہے۔

نوٹ: انشاءاللہ افضل صاب کی ب میں باجماع اہتمام کے ساتھ شام تک وڑا جاوے گا۔