2013 میں امارات میں ڈرائیونگ ٹیسٹ مشکل سے پانچ منٹ کا ہوتا تھا۔ اگر آپ دبئی میں ہوتے تو اس پانچ منٹ تک پہنچنے کے لیے آپ کو اچھے خاصے بادام توڑنے پڑتے تھے۔ ممکن ہے دوسروں کے ساتھ ایسا نہ ہو، یا اب ایسا نہ ہوتا ہے، میرے زمانے میں ایسا ہی ہوتا تھا۔ سونے پہ سہاگہ کہ ڈرائیونگ کلاسز ختم ہونے کے کچھ عرصے بعد ہی والد صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ فروری سے جون تک جو محنت کی تھی وہ سب ضائع ہوئی، ڈرائیونگ فائل کھلتی تھی، وہ ایکسپائر ہوئی اور چند ماہ بعد نئے سرے سے خواری۔ دو بار ڈرائیونگ ٹیسٹ فیل کیا، تیسری بار پاس۔ لائسنس لیتے ہی ایک گھنٹے کے اندر گاڑی خریدنے گیا اور 1800 سی سی پری اونڈ مارکیٹ سے زیادہ قیمت پر غالباً الرستمانی سے غالباً چالیس ہزار درہم پر پانچ سالہ لیز پر اٹھائی اور گھر آگیا۔
پہلی محبت، پہلی بیوی اور پہلی اولاد کی طرح پہلی گاڑی کی بھی حیثیت ذرا ہٹ کر ہوتی ہے۔ نسان ٹیڈا کی حیثیت بھی یوں کچھ ہٹ کر تھی۔ بہت خیال کرنا، صفائی ستھرائی بہترین رکھنا، وغیرہ وغیرہ وغیرہ وغیرہ یہ سب عادت میں شامل تھا۔
امارات میں ہمارے ایک دور کے رشتہ دار تھے۔ ہم نام فرض کر لیتے ہیں رشتے کی ممانی سلطانہ۔ ممانی سلطانہ کے شوہر ماموں طاہر فرض کر لیتے ہیں۔ 2014 میں جب فیملی پاکستان سے امارات لایا تو گھر کرائے پر لینا ایک بہت بڑا پراجیکٹ لگ رہا تھا۔ تب دبئی میں گھر بہت مہنگے، شارجہ میں ذرا سستے اور عجمان میں کافی سستے مل جاتے تھے۔ مجھے عجمان کا پتہ نہیں تھا۔ ممانی سلطانہ نے اس وقت مدد یوں کی کہ اپنے گھر کے قریب ہی راہ چلتے ایک مکان برائے کرایہ سے گھر کا پوچھا اور مجھے بتا دیا۔ عجمان نعیمیہ میں کراچی دربار کے پیچھے والی طرف کچی گلی میں گھر تھا۔ ڈوبتے کو تنکے کا سہارہ، گھر بخوشی قبول کر لیا۔ دو گلی چھوڑ کر ممانی سلطانہ خود رہائش پذیر تھیں۔
ممانی سلطانہ کی تین بہت پیاری اور معصوم بچیاں، ایک بیٹا تھا۔ تب ہم ہر بات پر ایمان لے آتے تھے سو ہمیں بتایا گیا کہ کسی دور میں ماموں طاہر بہت بڑے بزنس مین تھے۔ ہر وقت گاڑیوں کی ریل پیل ہوتی تھی، وغیرہ وغیرہ۔ پھر حالات نے پلٹا کھایا اور ثریا سے زمین پر دے مارے گئے۔ اس بیچ جو ہوا وہ یا تو بتایا نہیں جاتا یا اشاروں کنایوں میں جو بتایا جاتا وہ فہم و ادراک کے پیمانے سے مطابقت نہ کھاتا۔ خیر، ہم یقین کر لیا کرتے۔
امارات میں میری وائٹ کالر جاب تھی۔ گھر کرائے پر لیتے سیٹ ہوتے کچھ وقت ضرور لگا مگر جلد ہاتھ پیر مار کر سیٹ ہو ہی گئے۔ ایک بار سیٹ ہو گئے تو جو آتا وہ ہنسی خوشی لگ بھی جاتا۔ بہت عیاشی نہ سہی مگر راس الخیمہ، خورفکان وغیرہ ہر دو تین ماہ میں ایک بار رکنے ضرور جایا کرتے۔ جو لوگ میرے ساتھ بھلے تین چار دن رہے یا سفر کیا، وہ جانتے ہیں اپنا اصول مستقبل میں بچت پر کم اور آج کے روز بچوں اور جو بھی آس پاس ہے اس کے ساتھ موج منانے پر مبنی ہے۔ میرا ہاتھ ضرورت سے زیادہ کھلا ہے۔ تب چونکہ ممانی سلطانہ وغیرہ آس پاس ہوتے تو موج ہم انہی کے ساتھ مناتے۔ کیسے اور کس حد تک اس کی تفصیل میں نہیں جاتے۔ ہاں جو احباب امارات میں میرے ساتھ محافل کا حصہ رہے، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ حالات کیا ہوتے تھے۔
ایک سال سے کچھ زیادہ عجمان میں رہنے کے بعد مجھے ابو ظہبی میں جاب مل گئی۔ پچھلی سٹارٹ اپ ٹائپ کمپنی کے برعکس یہ ایک ملٹائی نیشنل فرینچ کمپنی تھی۔ تنخواہ پہلے سے بہتر تھی، آگے چل کر بہتر سے بہتر ہوتی رہی۔ انشورنس بھی پوری فیملی کی نسبتاً بہتر والی دستیاب تھی۔ سالانہ ریٹرن ٹکٹ بھی پورے کنبے کا ملا کرتا پاکستان آنے جانے کا۔ عہدہ بھی مینیجر۔ مطلب الحمد للہ و ثم الحمد للہ۔
حالات بہتر ہوئے تو خواہشات نے انگڑائیاں لینی شروع کیں۔ سوچا گاڑی بدلی جائے۔ مٹسوبیشی آؤٹ لینڈر سمجھ آئی، وہ بھی لیز پر ہی خرید لی۔ تنخواہ اتنی تھی کہ پچھلی گاڑی اور نئی دونوں گاڑیوں کی ماہانہ لیز آرام سے دے سکتا تھا۔ اس وقت میری پہلی گاڑی نسان مارکیٹ میں شاید چوبیس ہزار درہم میں بک رہی تھی۔ اس وقت گاڑی کی ریجسٹریشن شاید تین چار سو درہم میں ہوتی تھی۔
ماموں طاہر سے سرسری ذکر ہوا۔ اگلے ہفتے الحمد ماموں طاہر ممانی سلطانہ اور اہل و عیال سمیت عجمان سے ابو ظہبی ہمارے گھر پر تھے۔ تب تک میں اتنا رشتہ دار بیزار نہیں تھا سو خوش ہوا کہ چلو مہمان آئے ہیں۔ کچھ دیر گفت و شنید کے بعد مدعا پیش ہوا کہ برادر وہ جو آپ کی گاڑی کھڑی ہے نیچے سفید والی، پیاری سی، خوبصورت سی۔۔ کیا آپ کا بیچنے کا ارادہ ہے؟ میرا ارادہ تب تک کنفرم تو نہیں تھا مگر دل تھا کہ گاڑی نہ بیچوں۔ بہرحال کہنے کو کہہ دیا کہ جی بیچنی ہو شاید۔ فرمایا کتنے کی۔ میں نے مارکیٹ کا ریٹ بتا دیا چوبیس ہزار درہم۔ یہاں سے ماموں طاہر نے ممانی سلطانہ کو گیند پاس کر دی۔ کہنے لگیں اتنے تو ہمارے پاس نہیں ہیں۔ پوچھا کیا مطلب؟ فرمانے لگیں دراصل ہم چاہ رہے تھے ہم تمہاری گاڑی خرید لیں۔
اب مجھے ان کے حالات کا بہت اچھی طرح اندازہ تھا۔ اکٹھی پیمنٹ تو دور کی بات، جو اقساط میں بینک کو دے رہا تھا وہ بھی دینا ان کے لیے مشکل تھا۔ لیکن میرے سامنے تین بچیاں بیٹھی تھیں جن سے ہم سب گھر والوں کو بہت پیار تھا۔ میں نے سب بچوں کو دیکھا، ممانی سلطانہ کو دیکھا اور پوچھا۔
کیا چاہتی ہیں آپ؟
کہنے لگیں۔۔ اتنے پیسے تو ہم نہیں دے سکتے۔ تم ایسا کرو 18000 درہم وہ بھی پانچ سو درہم ماہانہ پر ہمیں گاڑی دے دو۔
گویا چوبیس ہزاری کی گاڑی۔۔ جو مجھے یکمشت مل جاتے اور میں بینک کو دے کر معاملہ ختم کر دیتا، اب مجھے ناصرف چھ ہزار درہم کم پر دینی ہوگی بلکہ رقم تین برس میں ادا ہوگی وہ بھی اضافی پونے تین سو درہم ماہانہ اپنے پاس سے۔ اور مجھے اس میں کوئی پرابلم بھی نہیں تھا۔
میں نے کل ملا کر ایک منٹ سے بھی کم کچھ سوچا اور کہا۔۔ ٹھیک ہے آپ لے جائیں گاڑی۔ مگر چونکہ آپ یکمشت نہیں دے رہیں تو میں گاڑی اپنے نام نہیں کر سکتا کیونکہ بینک کی لیز پر ہے۔ آپ مجھے ماہانہ بھیج دیا کیجیے گا، میں تین چار سو بینک میں رکھا کروں گا۔ آپ کی قسط آئے گی، بینک آٹو ڈیبٹ مارے گا قسط چلی جایا کرے گی۔ بس ایک بات کا خیال کیجئے گا۔ آپ نے ماہانہ قسط وقت پر ادا کرنی ہے۔ دوم، گاڑی کی رجسٹریشن اور فائن آپ نے خود دینے ہیں۔
اس وقت ان کے بچے آس پاس ہی بیٹھے تھے۔ میں نے گاڑی دینے کی حامی بھری تو ان کے چہروں پر خوشی دیکھنے والی تھی۔
(جاری ہے)