یہ کہانی ہے تین مردوں کی جنہیں بوجہ ان کے "اعمالِ ابے سالے" اس خرافاتی تحریر کی حد تک امرودوں کے نام سے پکارا جائے گا۔ اصلی نام اور جائے وقوعے حذف کیے جا چکے ہیں تاکہ جاننے والوں کے جاننے والوں میں سے نکل آئیں تو باقی عمر انہیں چھیڑنے کا لائیسینس دوسروں کے پاس نہ جائے بس ہم تین چار کے پاس ہی رہے۔ تینوں واقعات میں مشترکہ خصوصیات کا مشاہدہ آپ نے خود کرنا ہے، ادارہ یہ بار اٹھا کر ان کا اظہار کر کے فحش گالیاں سننے کا فی الوقت ارادہ نہیں رکھتا۔
پہلا امرود عمر میں نسبتا کچا تھا اور یقیناً پہلی بار کسی گھٹن زدہ اسلامی معاشرے سے نسبتاً آزاد مبینہ اسلامی معاشرے میں قدم رنجہ ہوا۔ ایسا کیے بھی ابھی چند ماہ ہی ہوئے تھے۔ اسی نسبتاً آزاد اسلامی معاشرے میں ہیلووین کے بابرکت اجتماع کی غرض سے ہم تین دوست مجھ سمیت دو جن میں سے مذکورہ بالا امرود کے ہم دفتر تھے، موجود تھے۔ نہایت ہی ملٹی کلر ماحول تھا۔ مال و محلول آپس میں رل مل چکا تھا۔ ہم چونکہ شریف "النفس" انسان رہے ہیں لہذا ہم ان سب کو دیکھنے میں ہی اپنے پیسے پورے کر رہے تھے۔ اچانک موبائل فون کی گھنٹی بجی اور مذکورہ بالا امرود کا اسمِ گرامی سکرین پر جگمگانے لگا۔ سوچا بوائے پارٹی چاہ رہا ہوگا بلا لیتے ہیں اسے بھی اسی جنت نما میں۔ فون جو اٹھایا تو آگے سے روتی ہوئی آواز میں بتلایا گیا کہ میں خود کشی کر رہا ہوں۔ گویا "وٹ دا فک" سین۔ پوچھا ہوا کیا کہتا ہے فوری طور پر میرے گھر آؤ۔
احبابِ گرامی بشمول نامی گرامی خرامی، خود بتلائیے ایسے ماحول کو چھوڑ کر بھلا کون جانا چاہتا؟ کوشش کی کہ گولی بلکہ گولے دینے کی بھی مگر بوائے خود کشی کے معاملے میں سنجیدہ تھا۔ انسانی جان بلی پر چڑھانے سے بہتر تھا ہم اپنے ہیلووین کا بابرکت اجتماع دان کر دیتے، سو کر دیا۔ مذکورہ امرود کے گھر پہنچے ٹیکسی میں، جو یقین کیجیے اس وقت شدید تکلیف دیتی تھی کہ مہنگی خوب تھی۔ وہاں جو پہنچے تو ماتم کا ماحول اور لونڈا پریشان۔ پوچھا کیا ہوا تو جواب دیا۔۔ کچھ ہفتے پہلے مراکشی حسینہ سے انٹرنیٹ پر رابطہ ہوا۔ رات دن گپیں لگنا شروع ہوئیں، پھر گفتگو بالغانہ ماحول میں جانے لگی اور آخر کار چند روز پہلے موصوفہ نے اظہار عشق کرتے ہوئے اپنے کل اثاثہ جات ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیے۔ کہا ہمیں بہت مزا آیا۔ اگلے روز پھر یہی ہوا ہمیں پھر سے مزا آیا۔ تیسرے دن پھر سے یہی کچھ اور ہم گویا مخمور سے ہوگئے۔ آج یعنی چوتھے روز مراکشی حسینہ نے بتلایا کہ یہ قرض حسنہ نہیں، واپس کرنا ہوگا یعنی "میاں میرا بھی تو دل ہے"۔
مذکورہ بالا امرود بھروسے کے ہاتھوں محترمہ کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے کیمرے کے آگے الف نون ہوچلا اور وہی اپنا مالک آپ بنتے ہوئے محترمہ کو خوشیوں بھری ویڈیو کال فراہم کر دی۔ ٹھیک دس منٹ کے اندر امرود مبلوک ہوگیا اور مزید پانچ منٹ کے بعد اسے فیس بک پر کسی کا میسج آیا۔ غالبا ان دنوں انباکس میں کسی بھی اجنبی کا گھس بیٹھیا بننا آسان تھا۔ میسج میں فیس بک پر موجود اس کی تمام فیملی کے پروفائل لنک موجود تھے اور ساتھ ایک عدد ویڈیو۔
اب سمجھ تو آپ گئے ہوں گے کہ ویڈیو وہی مذکورہ بالا امرود کی اپنا دل خوش کرتے بنائی گئی تھی۔ اذن ہوا کہ پچیس ہزار سکہ رائج الوقت ایک عدد خلیجی ملک فلاں مراکشی بینک اکاؤنٹ میں منتقل کیے جائیں ورنہ ایک گھنٹے میں ویڈیو لونڈے کی ساری فیملی کو ہدیہ کر دی جاوے گی۔ بھئی ایسے حالات میں پھٹ کر ہاتھ میں آجانا برحق ہوتا ہے۔ قصہ مختصر، رو دھو کر بھاؤ کم کرتے کرتے چوبیس گھنٹے لگے اور اگلے دن قالین فروش پٹھان بھائی کی طرح پانچ سو روپے کے عوض مک مکا ہوگیا۔
الحمد للّٰہ، ثم الحمد للّٰہ
اگلے امرود کی سن لیں۔ یہ والا امرود شانوں یا رانوں کے وسط سے نہ سوچے تو اچھا خاصہ عقل والا بندہ ہے لیکن اس روز اس کی بدبختی کا وقت متعین تھا۔ امرود ثانی امرود اوّل کی نسبت عمر میں پکا تھا مگر تھا نوجوانی کی حالت میں۔ کافی گھٹن زدہ معاشرے سے اٹھ کر آزاد معاشرے میں آیا تھا اور کئی ماہ اس کی تاڑیاں دیکھ کر ہم اس سے دور چلنے لگتے۔ خیر، امرود ثانی کو کمپنی نے کچھ عرصے واسطے ہوٹل دیا کہ بندے کو نئے ملک میں سیٹ ہوتے وقت لگتا ہے۔
میرا گمان تھا کہ بندہ سیٹ ہونے کی کوشش میں ہے تاہم وہ تو خود کسی اور کے فریم میں سیٹ ہوگیا۔ ایک دن باچیز کو گھبرایا ہوا واٹس ایپ موصول ہوا جس میں ایک عدد خلیجی ملک کا سرکاری اہلکار امرود ثانی کو بتلا رہا تھا کہ تمہارا نمبر ایک مقامی ہوٹل میں چھاپے کے بعد ایک برہنہ حال عفیفہ کے موبائل سے ملا ہے۔ مزید یہ کہ تمہاری گفتگو کے کچھ شذرے ایسے ہیں جو قابل اعتراض و اعتراف ہیں۔ اس جرم میں تم پر سات ہزار خلیجی سکہ رائج الوقت جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔ امرود ثانی کی گوٹیاں اس پیغام کو دیکھ کر اس کے حلق تک رسائی حاصل کر چکی تھیں۔
باچیز نے سکرین شاٹ دیکھے اور امرود ثانی کو فی الفور کال کی۔ پوچھا وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن برہنہ حال عفیفہ کے واٹس ایپ تک تیری رسائی کیسے ہوئی کہ یہ کام تو باچیز میامی کے سٹرپ کلب تک پہنچنے کے باوجود نہ کر پایا۔ اب یا تو امرود ثانی ولی اللہ ہے یا پھر۔۔ خیر، سچ بتا۔ بقول امرود ثانی، استاد ناف کے نیچے فشار خون بہت بلند چل رہا تھا، گوگل کو ذرا سا جو کھنگالا تو حسن و جمال کا کمال رسائی میں آگیا۔ ہسپانوی حسینہ تھیں جن کے Parabola تا Hyperbola اور Hyperbola تا Eclipse نہایت قریب سے دیکھ کر یقین کرنا تھا کہ ان میں رب باری تعالی کی جانب سے کوئی سقم یا رب کے بندے کی جانب سے کوئی سلیکان موجود نہیں۔
پس، فلاں سینکڑہ عدد فی گھنٹہ کے حساب سے سودا طے ہوا اور میں سودے کا تبادلہ کرنے نکل گیا۔ ابھی راستے میں ہی تھا کہ سرکار کی جانب سے سات ہزار خلیجی سکہ رائج الوقت جرمانہ عائد ہوگیا۔ امرود ثانی کی پھٹی تھی لہذا پائپ میں پھنسے شیر کے مصداق اس کے ساتھ تھوڑا سا کھیل کر اسے کہا کہ ٹینشن نہ لے، سرکاری اہلکار کو بلاک کر دے اور بھول جا ایسا کچھ ہوا، تاہم مستقبل میں فشارِ خونِ زیریں کو تھامنا ہو تو بتلا دینا تجھے اس فیلڈ کے کھلاڑیوں سے متعارف کروا دیں گے، خیر ہوجائے گی۔ اس روز امرود ثانی نے توبہ کی جس کے قائم رہنے پر اگلے سال دو مجھے شک رہا، بہرحال جو اللہ کی مرضی۔
جہاں اتنا صبر کیا وہاں ذرا اور کہ آخری امرود سب سے دلچسپ رہا۔
آخری امرود ایک جہاں دیدہ گھاگ ہے جو بہرحال آبدیدہ آنکھ بننے پر مجبور ہوگیا۔ مختصراً، سوشل میڈیا پر ایک حسینہ نے رابطہ کیا۔ چیٹ ہوئی، موبائل نمبر کا تبادلہ ہوا، صوتی رابطہ قائم ہوا اور پھر دھیرے دھیرے ویڈیو کال بھی شروع۔ امرود ثالث کا تعلق بھی ایک گھٹن زدہ ملک سے ہے تاہم امرود ثالث کی عمر دیکھ کر مجھے لگتا نہیں تھا کہ وہ ایسے اندام نہانی نما جال یا جال نما اندام نہانی میں کبھی پھنس سکتا ہے۔ پچھلے دو امرودوں کی نسبت امرود ثالث گھامڑ پن کی حد تک گھامڑ ثابت ہوا کہ تین سے پانچ دن کے اندر ہی میراتھون ریس میں سمجھنے لگا کہ خان صاحب کی طرح پانچ سات ارب اکٹھے کر چکا ہے۔ وہی ہوا، واٹس ایپ پر ویڈیو کال ہوئی۔ خاتون نے میرا جسم میری مرضی کا فلک شگاف نعرہ سرگوشی کی صورت میں لگاتے ہوئے غالباً غیرت دلائی کہ میں زنانی ہوکر اتنی بولڈ ہوں تم امرود ہو کر پھٹو ہو؟ یا ممکن ہے کوئی اور حربہ آزمایا گیا ہو، یا واللہ اعلم بالصواب کیا گیدڑ سنگھی اپنائی کہ امرود ثالث باتھ روم وڑ گیا۔
یہاں میں اس امر العجب کی جانب توجہ دلانا چاہوں گا کہ جس دورہ میاہ میں امرود ثالث نے باہمی دلچسپی کے امور کا ویڈیو لنک پر جائزہ لینا اور دینا مناسب سمجھا وہاں انگیزی کموڈ بھی نہیں تھا۔ اب سوچتا ہوں تو دکھ الگ ہوتا ہے کہ گوڈے گٹے الگ دکھ گئے ہوں گے۔ خیر، سب کچھ کر کرا کے فارغ ہوا تو بندی سوشل میڈیا سے پردہ فرما گئیں۔ اگلے دن ایک بار پھر کسی سرکاری اہلکار نے رابطہ کیا کہ بھائی جان آپ تو مشہور ہوگئے ہیں۔
قصہ مختصر، سات آٹھ لاکھ کی ڈیمانڈ جو ہوتے ہوتے بیس پچیس ہزار سکہ رائج الوقت تک امرود ثالث کی عقل کی طرح زوال پذیر ہوئی تاہم امرود ثالث کو اب تک ہوش آچکا تھا۔ موصوف نے بلیک میل ہونے سے چٹیل انکار فرماتے ہوئے "چن پہ لڑھو" کا پیغام دیا اور اپنے تئیں بات ختم کر دی تاہم چند روز قبل تنہائی میں بیٹھ کر سوچ رہا تھا کہ واٹس ایپ پر ٹوٹوں کا دور ہے، خدانخواستہ کچھ باہر آگیا تو کیا ہوگا؟ پھر خود ہی کو تسلی دے کر اٹھ کھڑا ہوا کہ کیا ہوگا؟ کچھ بھی نہیں ہوگا۔ مک گئی گل تو مک گئی۔
تو بھائیوں اور خاص کر خواتین، ڈیجیٹل سپیس جہاں آپ کو آزادی دیتی ہے وہیں آپ کو ایسے رسک اور خطرات بھی لاحق کرتی ہے جو آج سے چند برس پہلے تک وجود نہ رکھتے تھے۔ بیشک حق و باطل کی اس جنگ میں دونوں ہمیشہ سے ہی نبرد آزما رہے ہیں، رہیں گے، آپ پلیز کوشش یہ کریں کہ اس پرائی جنگ میں آپ کسی طرح صرف نہ ہوجائیں۔
انٹرنیٹ پر ریڈ اونلی read only موڈ میں رہنا سیکھیے، رائٹ write ایکسیس کسی کو دیا تو پھر آپ vulnerable ہوجائیں گے۔ اس کے بعد آپ امرود اوّل و ثانی ہوئے تو ممکن ہے کوئی بڑی حماقت کر دیں تاہم خدانخواستہ ایسا کچھ ہو بھی جائے تو بھیا زندگی انمول ہے، امرود ثالث کی طرح ٹھنڈے خرامی بن کر جینا سیکھیں۔ ہونا نہیں چاہئے، پر ہوجاتا ہے۔ آگے دیکھنا سیکھیے۔
کیونکہ نہ ایسے امرود فقط تین ہیں اور نہ ایسی اندام نہانیاں۔
وما علینا الا البلاغ