وقت کی لکیر پر پیچھے مڑ کے اپنی نوجوانی کے فیصلوں اور طرزعمل کو دیکھوں تو مجھے سوائے حیرت کے کچھ نہیں ملتا۔ مجھے یاد ہے جب مصلحتوں بھری کارپوریٹ دنیا میں پی ٹی سی ایل کے صدر ولید ارشاد کو سیدھا کہہ دیا تھا کہ تمہارا نچلا طبقہ پیسے کھا رہا ہے۔ چلو پیسے کھا لے مگر کام پھر بھی نہیں کر رہا۔ ایک جونئیر انجینئیر اس قسم کی بات پی ٹی سی ایل جیسے ادارے کے صدر سے کر دے یہ مذاق نہیں ہوا کرتا۔ پوری کمپنی کا نقصان ہو سکتا تھا۔
لیکن تب جذبات کی موجیں اپنے تلاطم کی بلند ترین سطح پر تھیں۔ حجت کے معاملے میں ریورس انجینئیرنگ کی جاتی یعنی بجائے اس کے کہ براستہ دلیل نتیجے پر پہنچا جاتا، نتیجہ پہلے اخذ کر کے اس کے حق میں دلیل ڈھونڈنا عام تھا۔ تب دنیا ہمارے سامنے دلائل کے انبار رکھتی اور ہم "میں نہ مانوں " کی رٹ لگائے self righteousness کی spree پر گامزن رہتے۔
نقصان بہت اٹھائے۔ یہ دکھ کی بات ہے۔ تاہم اس سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ نقصان کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا۔ شاید یہ قدرت کی طرف سے انسان کو آگے بڑھنے کے لیے پروگرام شدہ حکمت عملی ہے۔ مثلاً سوچیے اگر آپ کو نومولود گی میں ہوئے اپنے ختنوں کی تکلیف یاد رہتی تو کیسی اذیت ناک سی یاد ہوتی۔ بس ویسے ہی، اس وقت اگر اپنی تیز رفتاری کا احساس ہوجاتا تو ممکن ہے آگے بھی نہ بڑھ پاتا۔ خوف اور مصلحتوں کے سہارے جہاں کھڑا تھا وہی کھڑا رہ جاتا۔ شاید یہ میرا نہیں سبھی کا معاملہ ہو، یا شاید میرا ہی معاملہ ہو۔
وقت کے ساتھ adrenaline rush کم ہوتا چلا گیا۔ دماغ کا سسٹم ون جو نسبتا خودکار intuitive طریقے سے فیصلے کرنے کا اہل ہے، کی نسبت سسٹم ٹو calculator decision making میں بہتر سے بہتر ہوتا چلا گیا۔ محبت اور نفرت اب دلیل کی متقاضی ہونے لگیں۔ خود سے مکالمہ بڑھتا رہا۔ اگرچہ پسند ناپسند qualitative وصف ہے، پھر بھی، جہاں تک ممکن ہو ہر پسند یا ناپسند کے پیچھے منطق ڈھونڈنے کی عادت ہونے لگی۔
ایک عادت جو پڑی وہ یہ کہ انسانی رویوں کا تجزیہ غیر ارادی طور پر کرنا شروع کر دیا۔ یہ عادت غلط ہے چند روز قبل اس کا احساس ہوا۔ کیوں غلط ہے؟ مجھے نہیں معلوم۔ ہاں کچھ بہت اہم انسانوں کو نہیں پسند۔ بات ختم۔
Check Mate!
لیکن اس غلط عادت کا ایک فائدہ ہوا۔ انسان سمجھ آنے لگے۔ کوئی غصہ کیوں کر رہا ہے، کسی کو کس بات سے غصہ آئے گا، کس بات پر دکھ ہوگا، کس بات سے خوشی ہوگی، کس بات سے سکون ملے گا۔۔ یہ سمجھ آنے لگا۔ ان تمام باتوں میں سٹیک ہولڈر میری ذات نہیں۔ ہاں کچھ فائدے اپنی ذات کو بھی ہوئے۔ مثلاً پتہ چل جاتا ہے کہ کون سا انسان نقصان پہنچائے گا، کون سا جھوٹ بولے گا، کون دھوکہ دے جائے گا۔۔ یہ باتیں سمجھ آنے لگیں۔
نتیجہ؟ ایک نہیں۔ کافی سارے۔
دشمنیاں کم ہونے لگیں۔ اپنی غلطیاں جو پہلے نظر نہ آتی تھیں اب سامنے آنے لگیں۔ غلطیوں کا اعتراف کرنے میں جھجک ختم ہونے لگی۔ نظریاتی مخالفت کے باوجود انسان پیارے لگنے لگے۔ دوستیاں یاریاں گہری سے گہری تر ہونے لگیں۔ بات کہنے سے زیادہ بات سننے کی عادت ہوتی رہی۔ روزمرہ زندگی میں وہ افسوس کم ہونے لگے جو پہلے ہر دوسرے دن ہوتے تھے۔ دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے کی عادت کم سے کم ہونے لگی۔
ختم کچھ نہیں ہوا۔۔ بس کم ہوگیا۔
اور جو پرانے واقف کار ہیں وہ یہ سب جانتے ہیں، مانتے ہیں۔
عجیب "میں " نامہ لگا لیا میں نے بھی آج۔
خیر۔۔ اصل مدعا یہ تھا کہ میرا میلبرنوی دوست شہریار بھٹی وہ واحد انصافیہ ہے جسے میں ناصرف قابل سیاسی بحث سمجھتا ہوں بلکہ ہر چند ماہ بعد پورے دل سے شہریار کی طرف جا کر اس کے ساتھ کئی گھنٹے گزارتا ہوں۔ میری کئی خامیاں شہریار کے علم میں ہیں مگر پھر بھی چھوٹے بھائیوں والا پیار ملتا ہے، سگریٹ بغیر روک ٹوک کے ملتی ہے، چائے ملتی ہے جس سے باوجود تائب ہونے کے میں بخوشی پیتا ہوں اور ابھی چند روز قبل تو اچار گوشت بھی ملا۔
بس ایک ملال ہے۔۔ جن دنوں شہریار کو کسی بچی سے ٹوووووووووٹ کر عشق ہونا چاہئے تھا ان دنوں شہریار نے عمران خان سے عشق کر لیا۔
وڑ گئے بھئی۔
اب میرا امتحان یہ ہے کہ جب شہریار جیسے مخلص ترین لوگوں کا اندھا عشق دیکھتا ہوں تو چند ساعت دل سے دعا نکلتی ہے کہ یا اللہ۔۔ یہ نیازی سکہ ہی چلا دے۔ خان کا دل بدل دے یا کوئی معجزہ برپا کر دے۔ چلو ہم تو بددل ہیں ہی، ان بیچاروں کے ساتھ کیوں زیادتی ہو؟ یہ ابھی adrenaline rush میں ہیں۔ جب تک طبیعت میں ٹھہراؤ آئے گا تب تک کوئی اور عمران خان سامنے کھڑا ہوگا ان کے۔
ایک اور دکھ بھی ہے۔
شہریار اور اس جیسے میرے بہت سے چھوٹے بھائی خان سے اس عشق کے چکر میں مجموعی طور پر اپنی شخصیت میں مستقل بنیاد پر بگاڑ لا رہے ہیں۔ اس کا نقصان نہ مجھے ہوگا نہ خاب صاحب کو، اگر ہوگا تو صرف اور صرف ان بھائیوں کو۔
آج حالت یہ ہے کہ ایک دل کہتا ہے خان بچ جائے اور انسان کا بچہ بن جائے۔۔
کیوں؟
کیونکہ میری تو کئی امیدیں ٹوٹ چکی ہیں۔۔ میں بس شہریار جیسے بھائیوں کی امیدیں ٹوٹتی نہیں دیکھنا چاہتا۔ یہ ابھی بھی ولید ارشاد کے سامنے کھڑے معاذ بن محمود ہیں۔
وما علینا الا البلاغ