1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. محمد اشتیاق/
  4. اگلا ووٹ کس کا؟

اگلا ووٹ کس کا؟

مسلم لیگ میرے اگلے ووٹ کی حقدار ہے۔ اگر وہ نہیں تو کون ؟؟؟ تمام بڑے بڑے مسائل کے حل کرنے میں پیش رفت ہوئی۔ ۔ ۔ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس میں بہتری نہ آئی ہو۔ سیاسی اختلاف اپنی جگہ لیکن مسلم لیگ نے دوسری سیاسی جماعتوں کی بھی ان کے صوبے میں مد د دی۔ ۔ ۔ ۔ گستاخی معاف پی ٹی آئی جن کامیابیوں کا کریڈٹ لیتی ہے اس کی بنیاد صوبے میں امن وامان پہ ہے۔ اور اس کا کریڈٹ فیڈرل حکومت کو جاتا ہے۔ پی پی۔ ۔ ۔ اگر کچھ دکھاتی ہے تو وہ کراچی کے آپریشن کے مرہون منت ہے۔ ۔ ۔

میڈیا میں یہ بات پھیلائی گئی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کہ آپریشن ضرب عضب اور کراچی آپریشن فوج کا کریڈٹ ہے۔ لیکن بڑی واضح نظر آنے والی بات اگنور کرتے ہیں کہ 2013 سے پہلے بھی فوج موجود تھی۔ ۔ ۔ رینجرز موجود تھے۔ ۔ ۔ فرق صرف "مسلم لیگ" کا ہے۔ جنہوں نے اس آپریشن کے لئے سیاسی ماحول ہموار کیا اور یہ فیصلہ لیا۔ حالانکہ جہاں آپریشن ہونا تھا وہاں کی صوبائی حکومتیں اس کے خلاف تھیں۔ ۔ ۔ ضرب عضب کے خلاف پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی۔ ۔ ۔ اور کراچی آپریشن کے خلاف پی پی اور ایم کیو ایم۔ ۔ ۔ ۔

اس حکومت نے ریاست کی رٹ بحال کرنے کے لئے بہت قربانیاں دی ہیں۔ اور جس شعور کا مظاہرہ اس حکومت کے قیام کے ساتھ ہی، اپنی مخالفین کے ووٹ کا احترام کرکے مسلم لیگ نے کیا۔ سچ یہ ہے کہ میرا ووٹ اس دن مسلم لیگ کا ہو گیا۔ جس نواز شریف کو میں جانتا تھا وہ اپنی ساری خوبیوں کے باوجود ایک ضدی اور انا پسند آدمی تھا۔ اس نے کے پی کے میں پی ٹی آئی کا مینڈیٹ تسلیم کیا۔ سندھ میں تو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا لیکن کے پی کے میں بہت کچھ ہو سکتا تھا۔ یہ اس کے انا پسند ہونے کی پہلی نفی تھی۔ لیکن اس سے بھی اہم قدم بلوچستان میں بلوچ قوم پرستوں کو حکومت دینا تھا۔ یہاں طاقت بھی تھی اور نمبر بھی پھر بھی ان کو اقتدار میں شریک کرنے سے بلوچستان کے درد میں کمی ہوئی۔ ایک دانشمندانہ قدم تھا جس کا ثمر یہ ہے کہ بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک میں وہ جان نہیں رہی -

حکومت کی رٹ کیوں قائم نہیں ہو سکی۔ یہ مسئلہ حکومت کی رٹ کا نہیں جمہوریت کی روح کی سمجھ کا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ جمہوریت کا تحفظ حکومت نہیں سیاستدان کیا کرتے ہیں عوام کیا کرتی ہے۔ بدقسمتی سے ہم لوگوں کو جمہوریت کی سمجھ نہ آسکی۔ ۔ ہمیں سمجھنے کا موقع ہی کم ملا۔ اور سیاستدان ہم میں سے ہی ہیں ان کو بھی جمہوریت کی سمجھ شائد صحیح سے نہ آسکی۔ ہماری فوج کے لئے بھی جمہوریت اقتدار کی راۃ میں رکاوٹ ایک جھلی سے زیادہ نہیں ہے جو خود سپردگی کے ایک لمحے میں راستہ دے دیتی ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ 70 سال بعد ہمارے میڈیا پہ "جمہوریت یا آمریت " میں تقابل ہو رہا ہے کہ کیا بہتر ہے ؟ لگتا ہے ہم پتھر کے زمانے میں رہتے ہیں۔ جہاں ہم لوگ یہ بحث کر رہے ہوں وہاں ایک حکومت جمہوریت کی رٹ بحال نہیں کر سکتی۔ وہ بھی پانچ سال میں۔

نواز شریف کے بارے یہ تاثر پھیلایا گیا کہ وہ اداروں سے ٹکر لیتا ہے۔ فوج اور عدلیہ۔ مثالیں یہ ہیں کہ پہلے دور میں وحید کاکڑ کے کہنے پہ استعفٰی دیا۔ ۔ دوسرے دور میں چیف جسٹس کے ساتھ لڑائی اور مشرف کا ٹیک اوور۔ لیکن کیا یہ سب دوسرے وزراء اعظم کے ساتھ نہیں ہوا۔ ایوب خان نے ٹیک اوور کیا تو وزیر اعظم کس ادارے سے ٹکر لے رہا تھا۔ ضییا سے بھٹؤ نے ٹکر لی تھی۔ مشرف کو آئینی طریقے سے ہٹانا ٹکر تھی ؟ وحید کاکڑ نے نواز شریف سے استعفٰی لیا تو ساتھ اسحاق خان سے بھی لیا وہ اسحاق خان جس نے بے نظیر اور نواز شریف دونوں کی حکومتوں کو گھر بھیجا۔ بے نظیر بھی ٹکراو والی تھی۔ عدلیہ سے ٹکراو، زیادہ دور نہ جائیں ہم پی پی اور افتخار چوہدری کی آنکھ مچولی نہیں بھولے۔ کیا پاشا کو اسمبلی میں بلانا کہ وہ آکے بتائے، کیسے امریکی ہمارے فوجی مستقر کے پہلو سے اسامہ کو اٹھا کے لے گئے۔ ۔ ۔ کیا یہ ادارے کے ساتھ ٹکراو ہے ؟؟؟ کیا دنیا کی بہترین فوج سے جو ہمارے اوپر احسان کرکے سیلاب میں کشتیا ں بھی چلاتی ہے اس سے یہ سوال کرنا ٹکراو ہے تو یقین رکھیے ہم ابھی بھی جمہوریت کی روح سے ناواقف ہیں۔ ہمیں آج بھی اس تنظیمی ڈھانچے سے نابلد ہونے کا اعتراف کرنا چاہیے جو ڈھانچہ سب ترقی یافتہ ملکوں میں کام کر رہا ہے۔ ہم الٹی گنگا بہانا چاہتے ہیں اور ہم 70 سال سے اوپر کچھ سال اور یہ تجربہ کرنا چاہتے ہیں۔ اور جب ہم یہ چاہتے ہیں تو ایک نواز شریف نہیں۔ ۔ ایک مسلم لیگ نہیں درجن بھر بھی ناکافی ہیں اس کو روکنے کے لئۓ۔

اس حکومت کے آغاز پہ حکومت نے فوج پہ بالادستی قائم کی۔ ابتدائی دور میں تمام فیصلے بھی سول حکومت نے لئے۔ لیکن پھر دھاندلی کا ڈول ڈالا گیا۔ جس کی اہمیت چائے کے کپ میں طوفان سے زیادہ کچھ نہیں تھی۔ اور دھرنے کے ذریعے ان کو نیچے لگانے کی کوششیں ہوئیں۔ تیس، چالیس ہزار لوگ اگرنواز شریف کا استعفٰی لے کہ چلے جاتے تو شائد میرا ووٹ نواز شریف کے لئے نہیں ہوتا۔ لیکن پورے ایوان کا ساتھ ہونے کے باوجود بھی حکومت کے پاس دو آپشن ہی بچے تھے۔ "گھر" یا "لیٹنا"۔ ۔ ۔ حکومت کا فیصلہ تھا "لیٹنا"۔ ۔ ۔ شائد گھر چلے جاتے تو ٹکراو ہوتا۔ نتیجہ جمہوریت کا استحکام یا دس سال کا اندھیرا۔ ۔ کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ ۔ ۔ پر وہ نہیں ہوا اور اب اس پہ بحث فضول ہے۔

خارجہ پالیسی کی قربانی دے کر اندرونی حالات ٹھیک کرکے اگلی حکومت کے لئے ووٹ حآصل کرنے کی پالیسی اپنائی گئی۔ جو میرے خیال میں بری سٹریٹیجی نہیں تھی۔ معاشی ترقی کے لئے سی پیک پہ کام تیز ہوا۔ یہاں تک تو ٹھیک رہا لیکن پھر دو کام جن کی وجہ سے ہمیں آج کے حالات دیکھنا پڑر ہے ہیں۔

1۔ امریکہ کا پاکستان پالیسی سے انخلاء

2۔ ڈکٹییڑ پہ مقدمہ

ان دو فیصلوں نے سویلین حکومت کے پر کاٹنے کو یقینی بنا دیا۔ خارجہ پالیسی میں حکومت کا عمل دخل تھا ہی نہیں۔ لیکن سعودیہ میں فوج نہ بھیجنے کی پاداش میں، اور گوادر کو بزنس سنٹر بنانے کی وجہ سے عرب تو خلاف ہو ہی چکے تھے۔ اس پر مشرف کو کٹہرے میں لانے کا کسی بلڈی سویلین کا سوچنا گناہ کبیرہ سے کم نہیں تھا۔ وہی عدالت جو کرپشن کے کیسز کو رد کرچکی تھی وہی جج مدعی کو بلا کر مقدمہ چلواتا ہے۔ ڈان لیکس کے ذریعےحکومت پہلے ہی کافی نرم ہو چکی تھی۔ اس کے بعد احتساب اور انتقام کی ایک کہاتی کا آغآز ہوا جس پہ ہمیں مشورہ یہ دیا جا رہا کہ ہم اسے قانون کی بالادستی اور روٹین کی ایک کارروائی سمجھیں۔ یہی مشورہ احمد نورانی کو دیا جانا چاہیے کہ وہ اپنے خلاف ہونے والی کارروائی کو روز مرہ کی مار پیٹ سمجھے۔ اگر ایسا ہی ہے تو صحافی برادری کو مروڑ کس چیز کے اٹھ رہے ہیں ؟؟ صحافت پہ حملہ کہاں سے ہو گیا یہ تو روٹین ہے

میرے خیال میں آرمی، سول کھینچا تانی ابھی کچھ دیر اور جاری رہنی ہے۔ طاقت آرمی کے پاس ہے، پلڑا ان کا بھاری ہے۔ لیکن بدلتے وقت کو سیاستدان زیادہ سمجھ رہے ہیں۔ اس حکومت کہ لیٹنے پہ غصہ بجا۔ نیک نیتی پہ مجھے شک نہیں ہے۔ اس لیٹنے کا فائدہ یہ ہے کہ مسلم لیگ دعوٰی کر سکتی ہے کہ انہوں نے اپنے وعدے پورے کیے۔ 2014 میں نہیں کر سکتی تھی اور اداروں سے ٹکراو کا الزام اس وقت حکومت ختم ہونے پہ بھی لگنا تھا۔ اس حکومت نے کام کیا۔ وعدے پورے کئے۔ اور لوگوں کو یہ بات پتہ ہے ایسا نہیں ہے کہ یہ پریزینٹ نہیں کرسکے۔ ابھی اگر وہ بغیر نواز شریف کے حکومت قبول کر چکے ہیں تو اس کی وجہ اپنے کاموں کی تکمیل اور ان کا کریڈٹ لینا ہی ہے۔

میرا اگلا ووٹ مسلم لیگ کے لئے ہے، ان کی بہادری کی وجہ سے نہ ہو ان کی پرفارمنس کی وجہ سے۔ اور مجھے کوئی شک نہیں کہ میں اپنا ووٹ کاسٹ کروں گا کیوںکہ یہ ووٹ میرا جمہوریت پہ یقین کا ثبوت ہے۔ اور میرا ووٹ نہ ڈالنا آمریت کا ساتھ ہے۔ میں اپنے حصے کی زمین ٹھنڈی کرنے کا ذمہ دار ہوں۔ پوری دنیا کو سیراب کرنا میرے بس میں نہیں۔ سوجو میں کر سکتا ہوں وہ کروں گا۔


محمد اشتیاق

Muhammad Ishtiaq

محمد اشتیاق ایک بہترین لکھاری جو کئی سالوں سے ادب سے وابستہ ہیں۔ محمد اشتیاق سخن کدہ اور دیگر کئی ویب سائٹس کے لئے مختلف موضوعات پہ بلاگز تحریر کرتے ہیں۔ اشتیاق کرکٹ سے جنون کی حد تک پیار کرنے والے ہیں جن کا کرکٹ سے متعلق اپنی ویب سائٹ کلب انفو ہے جہاں کلب کرکٹ کے بارے معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں ۔ بہ لحاظ پیشہ محمد اشتیاق سافٹ ویئر انجینئر ہیں اور ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کر رہے ہیں۔