چوہدری نثار نواز شریف کا 35 سال سے رفیق، آج ان کی راہیں الگ ہو گئی ہیں جو 2000 میں ہی الگ ہو جانی چاہیں تھیں اصولی طور پہ۔ لیکن دیر آئد درست آئد۔ دونوں کا سفر مختلف اطراف میں تھا۔ آج نواز شریف جیل میں۔ اور نثار انتخابی مہم چلا رہا ہے۔ اس سے ان کی ڈائریکشن کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کون کہاں کھڑا ہے۔
چوہدری صاحب کی پانچوں گھی میں ہیں۔ اکیلے ہی الیکشن لڑ رہے ہیں، ان کا مخالف قمرالاسلام کو نیب نے قید کر رکھا ہے اس کے باوجود کہ نیب نے اعلان کیا تھا کسی بھی امیدوار کو گرفتار نہ کرنے کا۔ لیکن کوئی نہیں چوہدری صاحب کے لئے یہ چھوٹی سی دفتری غلطی برداشت کی جا سکتی ہے۔
قمرالاسلام نے گرفتاری سے پہلے ایک ٹویٹ کی تھی کہ "میں نے چوہدری صاحب کو ہر یونین کونسل نہ دکھائی تو میرا نام نہیں"۔ ۔ ان کی خواہش پوری نہ ہو سکی اور وہ جیل چلے گئے۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ چوہدری صاحب کو ہر یونین کونسل دکھاتے لیکن یہ شرف ان کے نصیب میں نہیں تھا بلکہ ان کے 12 سالہ بیٹے کے نصیب میں تھا۔ جو چوہدری صاحب کو ہر یونین کونسل میں جانے کے لئے مجبور کر رہا ہے۔
میں اسی حلقے کا ووٹر ہوں۔ کسی الیکشن میں چوہدری نثار نے اس حلقے میں جلسے کرنے کی زحمت نہیں کی۔ اس کے باوجود آٹھ دفعہ جیتنے والے چوہدری نثار کے بیلٹ باکس سے ووٹ ڈھیروں کے حساب سے نکلتے تھے۔ وہ ووٹ چوہدری صاحب کا غرور اور فخر تھا۔ لیکن کیا یہ فخر ان کا ذاتی تھا یا "شیر" کی دین تھی۔ اس کا یقین شائد ان کو خود بھی نہیں اس لئے اس دفعہ ہر یونین کونسل میں جلسہ کر رہے ہیں۔ ان کو سمجھ نہیں آرہی کہ وہ نواز شریف کے خلاف بات کریں یا حق میں۔ وہ کس منہ سے نواز شریف کے خلاف بات کریں گے کہ 35 سال اس کے ساتھ رہے تو اس وقت کیا چھنکنے بجارہے تھے اس کے ساتھ۔
واحد وزن دار بات یہ ہے کہ میں نواز شریف کو موجودہ صورت حال سے بچانے کے لئے ٹکراو سے گریز کا مشورہ دیتا تھا۔ کیا یہ نواز شریف کے بیانیے کی حمائت نہیں؟
میرا ووٹ قمرالاسلام کے لئے ہے، میرا ووٹ سالار کے لئے ہے۔ جو اپنے باپ کی جگہ جا کہ لوگوں کو پیغام پہنچا رہا ہے۔ اس چھوٹے سے بچے کہ منہ پہ تالا لگانے کی کوششوں کے باوجود اس کی آواز کی گونج ابھی قائم ہے۔ یہ بازگشت 25 جولائی کو سنائی دے گی۔ چوہدری صاحب کو اپنے سے جونیئر کا آرڈر لینا پسند نہیں۔ پتہ نہیں 12 سالہ بچے سے مقابلہ ان کو پسند آ رہا ہوگا کہ نہیں؟