1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. محمد اشتیاق/
  4. کرکٹ کی نرسریاں، سیاست کا شکار

کرکٹ کی نرسریاں، سیاست کا شکار

چند روزقبل انگریزی روزنامہ "نیشن " میں محسن علی کا ایک آرٹیکل چھپا۔ جس میں راولپنڈی ڈسٹرکٹ کے کاونٹی کرکٹ کلب کے پریذڈنٹ اور پروویژنل کمیٹی کے ممبر عاشق حسین اور عمران کلب کے سیکرٹری نے راولپنڈی میں حالیہ ہی میں ہونے والے انڈر 19 ٹرائلز کے حوالے سے سابقہ عہدیداران پہ کچھ الزام لگائے۔ انہوں نے کہا کہ ٹرائلز کے دوران دخل اندازی کی گئی اور ٹرائلز کے لئے آنے والے سیلکٹرز کو دھمکایا گیا۔ جس سابقہ عہدیدارکا نام لیا گیا وہ ایسوسی ایشن کے سابقہ سیکرٹری اور پی سی بی گورننگ باڈی کے سابقہ ممبر، اور روالپنڈی کرکٹ کے حلقوں کی مشہور شخصیت مسعود انور ہیں۔

مسعود انور تین عشروں سے زیادہ کرکٹ سے وابستہ ہیں اور ایک نرم خو شخص کے طور پہ جانے جاتے ہیں۔ ان کے حوالے سے کہا گیا کہ پی سی بی نے مالی خرد برد پہ ان کو بین کیا۔ اور ان کے الیکشن لڑنے پہ پابندی لگائی۔ پی سی بی میں انتظامی تبدیلیوں کے بعد کئی سالوں سے ایڈہاک پہ چلنے والے راولپنڈی ڈسٹرکٹ میں جو ہلچل شروع ہوئی تھی۔ ان الزامات نے اس ہلچل میں اضافہ کردیا۔ دبے لفظوں اور اشاروں کنایوں میں جاری سیاسی جھڑپوں کے درمیان میڈیا کے ذریعے سنگین الزامات کی یہ پہلی مثال تھی۔ راولپنڈی کی کرکٹ کی طاقت کا محور تبدیل ہونے کی بات ڈھکے چھپے لفظوں میں کی جا رہی تھی، پی سی بی کے مضبوط ستون جنہوں نے اسلام آباد اور راولپنڈی کی کرکٹ کو ایک ہی کھونٹے سے باندھ رکھا تھا۔ ان کی گرفت کمزور ہونے کی خبریں بھی گردش کر رہی تھیں۔ لیکن یہ سب کچھ بین السطور میں ہورہا تھا، اب ان الزامات کے بعد معاملا ت کسی اور طرف جانے کا اشارہ دینے لگے ہیں۔

ایک روز قبل ایک ٹی وی چینل سے راولپنڈی میں کرکٹ ٹورنامنٹ نہ ہونے کے حوالے سے ایک نیوز میں، پی سی بی کو ڈسٹرکٹ کی جانب سے بھجوائے گئے ٹورنامنٹس کی تفصیلات دکھائی گئیں اور ان میں بعض معاملات کو بطور بے ضابطگی پیش کیا گیا۔ جیسا کہ عید اور عاشورہ کے روز ایک آفیشل ٹورنامنٹ کے میچز ہونا۔ چھ سالہ بچے کا 50 اوور کے میچ میں 10 مکمل اوور کروانا۔ اس پہ بحث ہو رہی ہے کہ یہ ممکنات میں ہے یا نہیں۔ لیکن ایک اشارہ واضح ہے کہ یہ "غزل جواب آں غزل " تھا۔ اور طرفین سے ابھی اور بہت کچھ آنا باقی ہے۔

ان دو واقعا ت میں دو ہی باتیں بہت اہم ہیں۔ ایک مسعود انور کی شخصیت پہ براہ راست حملہ، اور دوسرا ایک ڈسٹرکٹ کمیٹی کے عہدیدار کا میڈیا کے ذریعے الزام لگایا جانا۔

مسعود انور نے اس سلسلے میں اپنا موقف دیتے ہوے ان الزامات کو بے بنیا د قرار دیا کہ انہوں نے سیلیکشن کے عمل میں کسی قسم کی بھی دخل اندازی کی۔ یا کسی فرد کو دھمکایا۔ انہوں نے کہا کہ وہ ٹرائلز کے دوران سٹیڈیم میں گئے تھے اور سیلیکشن کے عمل کو دیکھتے رہے لیکن نہ ہی انہوں نے وہاں موجود سیلیکٹرز کو دھمکایا اور نہ ہی کوئی رائے دی۔ سیلیکشن کے تمام مراحل اپنی رفتار سے پی سی بی کے سیلکٹرز اور انتظامیہ کے زیر انتظام خوش گوار ماحول میں منعقد ہوئے۔ اور سیلیکٹرز نے ٹرائلز کے اختتام پہ ان کے ساتھ اور چند اور کلب آرگنائزرز کے ساتھ، چائے بھی پی جس کا انتظام کمیٹی کی طرف سے کیا گیا تھا۔

مالی بد عنوانی اور الیکشن میں حصہ لینے پہ پابندیوں کے الزام کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ پابندی ان کو 2006 میں ہونے والے الیکشن سے روکنے کے لئے لگائی گئی تھی، لیکن انہوں نے اس وقت پی سی بی کے مقرر کردہ ثالث کے سامنے اپنا مقدمہ لڑا اور ان پہ کوئی بھی مالی بدعنوانی ثابت نہ ہو سکی۔ انہوں نے پی سی بی کے ثالث شکیل شیخ کے سامنے لگائے گئے الزامات کے جواب میں تمام دستاویزی ثبوت پیش کیے، ان کے پاس تمام رقوم کی ٹرانسفر کا بینک ریکارڈ موجود تھا جو جنرل توقیر ضیاء نے انہیں ڈویژنل کرکٹ ایسوسی ایشن کے خاتمے کے بعد کسی انتظامی ڈھانچے کے نہ ہونے کی وجہ سے، نیوزی لینڈ کے راولپنڈی میں میچ کے لئے دی تھی۔ خرچے کے ریکارڈ کے ساتھ باقی ماندہ رقم ایسوسی ایشن کے اکاونٹ میں ٹرانسفر کر دی گئی تھی۔ اس ریکارڈ کو جھٹلانا پی سی بی کے ثالث کے لئے بھی ممکن نہیں تھا سو ان پہ پابندی ختم کر دی گئی۔ انہوں نے الزام لگانے والوں کی کم علمی پہ افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان پہ اس قسم کے الزامات کی وجہ سے کوئی پابندی ہوتی تو وہ اس کے بعد گورننگ باڈی کے ممبر کیسے بن گئے؟ گورننگ باڈی پی سی بی کی سب سے اہم اور اعلٰی ترین اتھارٹی ہے۔ جس نے سب سے اہم فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ وہ ایک "بین شدہ" شخص کو اس باڈی کا ممبر کیسے بنا سکتے تھے۔

دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ عاشق حسین، جنہوں نے الزامات لگائے، بذات خود پروویژنل کمیٹی کے ممبر ہیں جس کے زیر انتظام ٹرائلز ہو رہے تھے۔ ان کے پاس اس سلسلے میں کیا ثبوت ہیں، آیا ان کو یہ شکائت سیلیکٹرز کے طرف سے آفیشیلی آئی ہے یا انتظامیہ کی طرف سے آئی، ابھی یہ واضح نہیں ہے۔ اور اس شکائت پہ بطور ذمہ دار انہوں نے فور ی طور پہ کیا ایکشن لیا؟

راولپنڈ ی ڈسٹرکٹ میں 15 سال سے چلنے والے "ٹیسٹ میچ" کا یہ آخری سیشن ٹی 20 سے زیادہ دلچسپ ہو گیا ہے۔ کنڈیشن کس کے لئے موافق ہیں، اور کس کو پچ پہ مشکلات کا سامنا ہے۔ ابھی واضح نہیں لیکن جلد ہی معلوم ہو نے جا رہا ہے کہ اگلی اننگز کون کھیلے گا۔ لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ فیصلہ پچ کی بجائے "کمنٹری باکس " میں ہو جائے کیونکہ میڈیا کا اثر کھیل پہ بہت زیادہ ہو گیا ہے۔

(https://clubinfo.pk/articles/2629.php?No=2629)

محمد اشتیاق

Muhammad Ishtiaq

محمد اشتیاق ایک بہترین لکھاری جو کئی سالوں سے ادب سے وابستہ ہیں۔ محمد اشتیاق سخن کدہ اور دیگر کئی ویب سائٹس کے لئے مختلف موضوعات پہ بلاگز تحریر کرتے ہیں۔ اشتیاق کرکٹ سے جنون کی حد تک پیار کرنے والے ہیں جن کا کرکٹ سے متعلق اپنی ویب سائٹ کلب انفو ہے جہاں کلب کرکٹ کے بارے معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں ۔ بہ لحاظ پیشہ محمد اشتیاق سافٹ ویئر انجینئر ہیں اور ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کر رہے ہیں۔