بہت شوق تھا اکانومی پہ ڈاکٹرائن دینے کا۔ بہت بڑی انا تھی کہ اس بندے کو اور اس حکومت کو نکالنا ہے۔ رسوا کرنا ہے جس کے لئے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے۔ انصاف کے جوکروں سے لے کے انصاف والوں کے جوکر تک اکٹھے کر کے اس حکومت کے خلاف سازشوں کی گٹھڑی کھول دی جس نے اس ملک میں امن بحال کیا۔ جس نے فوج کی عزت بحال کی۔ جس نے اکانومی کو سیدھی راہ پہ ڈالا، جس نے ملک سے اندھیروں کو دور کیا۔
ایک دفعہ پھر ثابت کیا کہ سرکاری انا کے آگے اس ملک کے لئے کچھ کرنے والوں کی حیثیت ایک ذرے کے برابر بھی نہیں۔ ایک سویلین کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی بجائے آئی ایم ایف کے آگے لیٹنے کو ترجیح دی۔
سٹیٹ بینک کا سربراہ، آئی ایم ایف کے نمائندے کو لگا دیا گیا ہے۔
آئی ایم ایف نے بھیک دے کہ آپ کی بڑی انا کو مٹی میں ملا دیا۔ اب آپ کے پاس ایک ہی آپشن رہ جائے گی۔ ان کے آگے لیٹ کے اس ملک کی عزت کوپامال کراتے رہیں یا پھر دیوالیہ قرار دیئے جائیں۔
ملک کے خلاف اس سازش میں شامل ہر بندہ ذلیل و خوار ہو گا۔ اور اس ملک کے قانون کا سامنا کرے گا۔ جن کو یقین نہ ہو وہ ان بد مست ہاتھیوں کی حالت ضرور دیکھے جو کبھی مکے لہرا کے مرنے والوں کو اپنی کامیابی کا ثبوت بتاتے تھے۔ جنہوں نے لوگوں کے لئے اس ملک کی زمین کو تنگ کر دیا تھا۔ جنہوں نے یہ سوچا تھا کہ یہ مٹی ان کے حکم کی پابند ہے اور وہ کسی کا پاوں ان کی مرضی کے بغیر نہیں پڑنے دے گی۔ صد افسوس طاقت کے نشے میں چور، ہمارے وقتوں کے فرعون آج اس مٹی پہ پاوں رکھنے کو ترس رہے ہیں۔ یہ مٹی کسی کا حکم نہیں سنتی اور نہ کسی کا قرض رکھتی ہے۔ جس نے اس دھرتی کو بے گناہوں کے خون سے رنگین کیا۔ آج ان کا خون چوسا جا چکا ہے۔
موجودہ فرعونوں نے کیسے سوچ لیا کہ وہ جوابدہ نہیں؟؟ وہ لوگوں کے ذہنوں پہ اور زبانوں پہ تالے لگائیں گے؟؟؟ اور وقت ان سے ظلم کا حساب نہیں لے گا۔ ہر آنے والا فرعون سمجھتا ہے کہ وہ پہلے والے سے بہتر ہے اس کا منصوبہ پہلے والے سے زیادہ مکمل ہے۔ لیکن ایسا نہیں۔ ہر ایک نے اپنے حصے کے ظلموں کا حساب دے کے جانا ہے۔
ان بزرجمہروں سے کوئی پوچھے کہ اتنی ریکی اور انٹیل کے بعد سب سے عمدہ پلان یہ تھا؟؟؟ آئی ایم ایف کے گرگے کو سٹیٹ بینک کا سربراہ لگا دیا جائے، اگر مداری کی ٹوپی میں سب سے اعلٰی شعبدہ یہی برآمد ہونا تو معافی چاہتا ہوں۔ ۔ ۔ بہت گھٹیا۔