نواز شریف کے خلاف نیب عدالت نے فیصلہ دے دیا۔ اس بات کی اہمیت نہیں کہ کرپشن سے بری ہو گیا، اثاثہ جات زیادہ ہونے اور بے نامی کے مفروضے پہ سزا دے دی۔ اس بات کی بھی اہمیت نہیں کہ یہ کمزور فیصلہ ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے اس کا مقابلہ جن لوگوں سے ہے ان کی طاقت بوٹوں میں ہے اور ان کی عقل بھی بوٹوں میں ہے۔ دھونس اور طاقت ان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے لیکن وہ سیاستدان نہیں ہیں، اس لئے سیاسی معاملات میں فیصلے ایسے کرتے ہیں جیسے دشمن کے خاتمے کے لئے کئے جاتے ہیں۔ سیاسی فیصلے ایسے نہیں کئے جاتے کیونکہ سیاست میں دشمن کبھی ختم نہیں ہو جاتا اس کو آہستہ آہستہ ریزہ ریزہ کیا جاتا ہے۔ اس کی مقبولیت کو، اس کے ووٹ کو چھیلا جاتا ہے جیسے پچھلے پانچ سال میں مسلم لیگ نے عمران کی مقبولیت کو چھیل کہ رکھ دیا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ عمر نواز شریف کی سائیڈ پہ نہیں ہے ورنہ میں کھلے عام کہتا کہ اس جنگ کے بعد مارشل لاء کبھی نہیں لگے گا مگر ایک بات طے ہے کہ اس فیصلے کے باوجود، اس بے پناہ طاقت کے مظاہرے کے باوجود ابھی بھی نواز شریف کی مٹھی میں ہے اس ملک کی تقدیر کا جن۔
یہ فیصلہ کروانے والوں کے ذہن میں یقینا کوئی پلان ہو گا کہ اس کے بعد بننے والی سچویشن کو کیسے ہینڈل کرنا ہے۔ اگر نواز شریف الیکشن سے پہلے ملک واپس آئے گا۔ کیوں کہ اس کے اور شائد اس کے خاندان کی سیاست اور اس ملک کی سیاست کا انحصار اس کے اس فیصلے پہ ہوگا۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے یقینا فیصلہ سازوں نے کوئی حکمت عملی تیار کر رکھی ہو گی۔ پہلی آپشن یہ ہے کہ گرفتار کریں گے تو کیا الیکشن سے 15 دن پہلے ایک بڑی سیاسی پارٹی کے لیڈر، اور سابقہ حکومت کے سربراہ کو جیل میں ڈال کہ آپ الیکشن کمپیئن سے باہر کریں گے۔ آپ کے الیکشن کی ساکھ کیا رہ جائے گی۔ اور انٹرنیشنل میڈیا آپ کو دھنک کہ رکھ دے گا۔ اور ابھی نہیں سالوں یہ بھوت آپ کا پیچھا کرے گا۔ پاکستان کی پوزیشن انٹرنیشنلی کوئی اچھی نہیں ہے۔ جس ادارے کی وجہ سے نہیں ہے اس کا نام اب ملک کے اندر اور باہر کھلے عام لیا جا رہا ہے۔ کیا اتنے بڑے بوجھ کے ساتھ اگلی حکومت کام کر سکے گی اگر سب کچھ مرضی کے مطابق بھی ہوا تو بھی؟
دوسری آپشن گرفتار نہ کرنے کی ہے، لیکن کیا جج بشیر کے فیصلے کا شکار، سزا یافتہ نواز شریف جب الیکشن کی ریلی میں آپ کو بار بار چیلنج کرے گا کہ آو مجھے کرو گرفتار تو کیا ان کی انا پہ چوٹ نہیں لگے گی۔ اور تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ جن لوگوں کی تربیت ہی عوام سے دور رہنے کے لئے کی گئی ہو۔ وہ سارے عقلمندانہ پلانز کو ایک سائیڈ پہ رکھ دیتے ہیں جب چوٹ ان کی "انا" کو لگتی ہے تو کیا اس دفعہ چیلنج کرتے نواز شریف کو وہ الیکشن تک گرفتار نہ کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟ جو گل بخاری، مطیع اللہ جان کی ہومیو پیتھک ٹوئٹس پہ سیخ پا ہو جاتے ہیں وہ اس چیلنج پہ نہیں ہوں گے؟
جو لوگ پاکستان کی گلیوں میں پھرتے ہیں ان کو اندازہ ہو گا کہ الیکشن سے 18 دن پہلے الیکشن کا ماحول اتنا بھی نہیں ہے جتنا لوکل باڈیز کے الیکشن میں تھا۔ ہو کا عالم ہے۔ لگتا ہی نہیں کہ الیکشن ہو رہا ہے۔ طوفان آنے سے پہلے کی خاموشی ہے۔ اس فیصلے کے بعد بھی خاموشی ہے۔ کیونکہ اس فیصلے کی امید لوگوں کو پہلے سے تھی کوئی شاک نہیں ہے۔ کوئی حیرانگی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر الیکشن سے پہلے سڑکوں پہ نواز شریف چیلنج دے گا تو بھی یہ خاموشی قائم رہے گی؟ یہ خاموشی کہیں الیکشن والے دن سنگین شکل نہ اختیار کر جائے؟