1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. محمد اشتیاق/
  4. جنرل ضیاء کا انٹرا پا رٹی الیکشن

جنرل ضیاء کا انٹرا پا رٹی الیکشن

جنرل ضیا کے حکومت سنبھالنے کے بعد جب عالمی طاقت نے انہیں افغان وار کی وجہ سے قبول کر لیا تو عوام کو مطمئن کرنے کے لیے جنرل نے ایک ریفرنڈم کرانے کا فیصلہ کیا جس میں پوچھا گیا کے " کیا آپ پاکستان میں اسلامی نظام چاہتے ہیں "، اگر آپ نے ہاں میں جواب دیا تو جنرل ضیا حکومت جاری رکھیں گے، نہ کی صورت میں وہ حکومت چھوڑ دیں گے۔ اب کون سا مسلمان ہو گا جو اسلامی نظام سے انکار کرے گا، سب نے " ہاں " پہ مہر لگا دی۔ اب اِس ہاں کے نتیجے میں جنرل ضیا نے اِس ملک پہ کئی سال حکومت کی۔ جنرل ضیا کے اِس ریفیرینڈم اور پی ٹی آئی کے الیکشن میں کچھ مماثلث سی محسوس ہوتی ہے۔ اِس میں بھی الیکشن 2 پینل کے درمیان تھا اور اگر آپ ایک کے حق میں ووٹ دیتے ہیں تو وہ پینل کے تمام ممران کے حق میں ہے۔ مطلب یا تو پورا پینل جیتے گا یا پورا ہارے گا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کے آپ چیرمین کے لیے عمران خان کو ووٹ دے دیں اور جنرل سیکرٹری کے لیے شہزادا وسیم کو۔ اگر آپ نے عمران خان کے پینل کو ووٹ دیا ہے تو وہ ووٹ جہانگیر ترین کو بھی مل گیا اور علیم خان کو بھی۔ اِس طرح 2 پینلز کا مقابلہ ہو رہا تھا۔

پی ٹی آئی کے اس انٹرا پارٹی الیکشن میں انصاف پینل نے احتساب پینل کو شکست فاش دے دی، پارٹی کے اندر بھی عمران خان کی قیادت میں یہ ایک بہت بڑی کامیابی حاصل کی۔ عمران خان کے ساتھ ان کے پینل میں شامل، ان کی ٹیم، جناب شاہ محمود قریشی، جہانگیر خان ترین، علیم خان، عاشق خاکوانی، عارف علوی، شاہ فرمان، علی آمین گنڈاپور، یار محمد رند اور چند اور لوگ شامل ہیں۔ الیکشن جیتنے پہ ان سب احباب کو مبارک، کہ عمران خان کی طفیل یہ لوگ اب عہدےدار ہیں۔

الیکشن کے لیے ٹوٹل رجسڑڈ ووٹ 27 لاکھ تھے، اور 2 پینل جو مقابلے پہ تھے ان میں سے ایک کی قیادت پارٹی چیئرمین عمران خان کر رہے تھے اور دوسرے کی نیک محمد خان، جی نیک محمد خان۔ ۔ ۔ کون ؟ ؟ ؟ جی بالکل۔ ۔ کون نیک محمد خان۔ اِس الیکشن کی خوبصورتی یہی ہے کے نیک محمد خان کو کوئی نہیں جانتا۔ جس پارٹی کا دعوے ہے کے وہ الیکشن سسٹم میں ریفارمز لائیں گے ان کے اپنے الیکشن میں ایسے کھڑے کر کے الیکشن جیتے جا رہے ہیں۔ نیک محمد خان کے پینل میں شاید ہی کوئی ایسا امیدوار ہو جس کی پارٹی میں کوئی حیثیت ہو۔ پِھر یہ ڈرامہ کیوں ؟

جو پارٹی تبدیلی کے نام پہ کھڑی ہوئی، جس کا خمیر ہی تبدیلی سے اٹھا تھا۔ اِس ڈرامہ کے لیے اس کے " آئین " میں تبدیلی کرنی پڑی۔ پی ٹی آئی کا آئین اِس طرح کے الیکشن کی اِجازت نہیں دیتا تھا لیکن تبدیلی کر کے اس میں یہ خوبصورتی شامل کی گئی۔ سینئرقانون دان اور عمران خان کے وکیل حامد خان نے پہلے ہی اس پہ اپنی تحفظات کا اظہار کر دیا تھا۔

اپنی پارٹی کے ہی کارکنوں کو بیوقوف بنانے کی بہت ہی عمدہ مثال۔ لیکن خان صاحب نے نئے پاکستان میں آنے والی تبدیلی کی ایک شکل بھی آپ کے سامنے رکھ دی ہے کہ اگر آپ عمران خان سے محبت رکھتے ہیں تو پِھر یہ ٹیم آپ کو قبول کرنی پڑے گی، آپ کے پاس اور کوئی راسته نہیں کے آپ چیئرمین کے آس پاس کوئی اور چہرہ لا سکیں۔ یہ اچھے ہیں یا برے آپ کو ان کو قبول کرنا پڑے گا۔ عمران خان اِس ملک سے کرپشن، وڈیرہ شاہی کو ختم کرنے کے لیے نکلا ہے، اگر آپ اِس مشن میں اس کے ساتھ ہیں تو آپ کو ترین، علیم اور قریشی کی قیادت قبول کرنی پرے گی۔ اِس ملک سے کرپشن اور وڈیروں سے چھٹکارا ایسی صورت میں پایا جا سکتا ہے کے آپ ان غرباء اور شرفا کی قیادت کو قبول کریں کیوں کے آپ کو عمران خان سے محبت ہے اور آپ اس پہ اعتماد کرتے ہیں۔ آپ کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے کے آپ ترین، علیم اور قریشی پہ اعتماد نہ کریں۔ آپ کو سر جھکا کے ان کے پیچھے چلنا ہو گا۔ آپ ان کو نکا ل نہیں سکتے، اگر آپ کے پروفائل میں "اینگرو" جیسے ادارے کی مہر بھی لگی ہے اور آپ پارٹی کے اسٹیو جوبز بھی کہلاتے ہیں تو بھی آپ کو علیم خان کی قیادت کے سامنے سَر تسلیم خم کرنا پڑے گا کیوں کے عمران خان نے اپنے اعتماد کا اظہار ان پہ کر دیا ہے۔ آپ بس ووٹ ڈالیں۔

مردان کی وہ درزی بابا جی یقینا یہ خیال کرتے ہوں گے کہ وہ بھی کسی پینل کا حصہ ہوتے لیکن وہ آگر ہو تےبھی تو نیک محمد کے پینل میں ہوتے جس نے ایلکٹ نہیں ہو نا تھا۔ وہ گنڈاپور جسے با صلا حیت نہیں ہو سکتے، اِس لیے وہ یقینا ہارنے والے پینل کا حصہ ہوتے، کیوں کے عمران خان اب جیتنے والے گھوڑے پہچان گیا ہے، بابا جی نہ تو بیلٹ بکس اٹھا کے پولنگ اسٹیشن سے جا سکتے ہیں، اور نہ ان کو مثالی پولیس جانے دے گی، کیوں کے وہ مثالی پولیس ہی کیا جو ایک غریب آدمی کو جرم کرنے دے، اور نہ ہی بابا جی عمران خان کے لیے شربت پہنچا نےکے لیے سنجے دت کی طرح سڑکوں پہ دوڑ سکتے ہیں۔ سو وہ اپنے کاروبار پہ توجہ دیں اور رزق حلال کمایں۔

ایک اور دلچسپ امرجو سامنے آیا وہ اِس الیکشن کا ٹرن آوٹ ہے۔ جو تقریباً 10.4 رہا۔ یہ الیکشن ایس ایم ایس کے ذریعے ہوا اور لوگوں نے ایس ایم ایس پہ اپنے پینل ایلیکٹ کرنا تھا۔ پِھر بھی ٹرن آؤٹ اتنا کم ؟ یہ ایک پریشان کن بات ہے پی ٹی آئی کے لیے کہ کارکنان جو کے پارٹی کے ورکر شمار ہوتے ہیں، ان کی ووٹ ڈالنے میں دلچسپی کا یہ عالم ہے کے وہ ایک ایس ایم ایس نہیں کر سکتے تو یہ آنے والے الیکشن میں آپ کا سہارا کیسے بنیں گے، ان الیکشن کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کے عمران خان نے عدالت کا سہارا صحیح لیا ہوا ہے کہ وہ ان کارکنان پہ تکیہ نہیں کر سکتے۔ یا پِھر عمران خان کو نظر دوڑانی ہو گی اپنے آس پاس، کہ ریفرنڈم میں جو سوال انہوں نے اپنی عوام کے سامنے رکھ دیا ہے وہ " اسلامی نظام " جتنا مضبوط نہیں ہے۔ ترین اور علیم، اسلامی نظام کا نعم البدل نہیں ہیں۔ اپنا سوال مضبوط کرنے کی ضرورت ہے پر لگتا ایسا ہے کے عمران خان اتنے مضبوط نہیں ہیں کے ان سوالوں سے کوئی جواب لے سکیں۔

عمران خان کے پینل نے ان 10.4 کا تقریباً 80 % ووٹ لیا، اِس طرح 27 لاکھ ووٹ کا تقریباً 7 سے 8 % ووٹ لے کے عمران خان چیئرمین منتخب ہو گئے۔ خود عمران خان کے بتائے گئے اخلااقی اصولوں کے مطابق تو عمران خان کو چیرمین شپ سے فوراً استعفی دے دینا چاہیے کے وہ صرف 8 % کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ وہ اسی اصول کے تحت نواز شریف اور ان کی پارٹی پی ایم ایل کی کریڈیبلیٹی کو چیلنج کرتے رہے ہیں۔ اور سونے پہ سھا گہ یہ کہ نیک محمد خان نے ان کے خلاف کل ووٹوں کا پچیس فیصد لے لیا۔ ایک غیر معروف شخص اور کپتان کے درمیان فاصلہ صرف ٦ % کا ہے۔

محمد اشتیاق

Muhammad Ishtiaq

محمد اشتیاق ایک بہترین لکھاری جو کئی سالوں سے ادب سے وابستہ ہیں۔ محمد اشتیاق سخن کدہ اور دیگر کئی ویب سائٹس کے لئے مختلف موضوعات پہ بلاگز تحریر کرتے ہیں۔ اشتیاق کرکٹ سے جنون کی حد تک پیار کرنے والے ہیں جن کا کرکٹ سے متعلق اپنی ویب سائٹ کلب انفو ہے جہاں کلب کرکٹ کے بارے معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں ۔ بہ لحاظ پیشہ محمد اشتیاق سافٹ ویئر انجینئر ہیں اور ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کر رہے ہیں۔