کسی بھی ملک میں کرکٹ کے فروغ کا آغاز گراس روٹ لیول سے کیا جاتا ہے ، جس ملک میں بھی کرکٹ کا بنیادی ڈھانچہ مضبوط ہو وہاں سے ہمیشہ اچھے کھلاڑی سامنے آئے ہیں ، مضبوط ڈھانچہ ایک کھلاڑی کو ڈسپلن اور پروسس سے گزار کر اس کی صلاحیتوں کو نکھار دیتا ہے ۔ اس کھلاڑی کو مختلف صورتحال کا سامنا کرنا آجاتاہے ، ان سے گزر کر جب وہ انٹرنیشنل لیول پہ آتا ہے تو اس کو زیادہ مشکلات پیش نہیں آتیں ۔
پاکستان میں بدقسمتی سے بنیادی ڈھانچے پہ کام کم ہوا ہے ۔ گراس روٹ لیول پہ پی سی بی کی عدم توجہی کا سائٹ (کلب انفو) پہ ہم اکثر ذکر کرتے رہتے ہیں ۔ ابھی تک ہم ڈومیسٹک کرکٹ کا سٹرکچر ہی فائنل نہیں کر سکے ، تو گراس روٹ لیول پہ توجہ دینا تو پی سی بی کے لیے شاید اہم نہ ہو ، اس حوالے سے کلب کرکٹرز ، کلب صدور ، آرگنائزرز میں کافی بے چینی پائی جاتی ہے ۔ اور پی سی بی پر بہت تنقید کی جاتی ہے ۔
بنیادی شکوہ یہی ہے کہ پی سی بی کلب کرکٹ پہ بالکل توجہ نہیں دے رہا ، گرائونڈز میسر نہیں ، ایسوسی ایشن ٹورنامنٹ نہیں کراتیں ، اگر کراتی بھی ہیں تو وہ اچھے طریقے سے منعقد نہیں کرتیں ، ٹورنامنٹ کے دوران گرائونڈ فیس ، ایمپائر فیس ، اور بالز کے اخراجات کافی ہوتے ہیں ۔ جو کہ کلب کو برداشت کرنے ہوتے ہیں ۔
یہ اعتراضات بہت حد تک جائز ہیں اور ہم بھی اس پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے کافی دفعہ یہ سوالات اٹھا چکے ہیں ، بہت سارے اضلاع ایسے ہیں جن میں ایک عشرے سے کلب کا کوئی ٹورنامنٹ نہیں ہوا ، مثال کے طور پر راولپنڈی ضلع جس نے اس سال بھی پاکستان کو 2 ٹیسٹ کرکٹرز (محمد نواز ، شاداب خان) دئیے لیکن یہاں کے کلبز کسی ٹورنامنٹ کے لیے پچھلے 10 سالوں سے ترس رہے ہیں ، اور یہی صورتحال کافی سارے اضلاع کی ہے ، جہاں کلبز ایک کوالٹی ٹورنامنٹ سے دور ہیں ۔
پی سی بی نے اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اس سال ایک نیشنل کلب چیمپیئن کا اعلان کیا جو ضلع لیول سے شروع ہو کر نیشنل لیول تک ہو گی اور ایک کلب نیشنل چیمپیئن قرار پائے گا ، یہ ایک قابل ستائش قدم ہے جو پی سی بی نے اٹھایا ۔ اس سلسلے میں کافی سارے اضلاع میں میں ناک آئوٹ رائونڈ کے میچز مکمل ہو چکے ہیں ۔ کچھ اضلاع میں ناک آئوٹ رائونڈ ہونا ابھی باقی ہے ۔ دوسرے مرحلے میں اضلاع لیول پہ لیگ میچز شروع کیے جائیں گے ۔ اس طرح کلبز کا گلہ دور کرنے کے لیے یہ کافی اچھا موقع ہے ۔
اس ٹورنامنٹ کے شروعات میں ہی جب کہ پی سی بی نے جب اضلاع سے کلبز سے پلیئرز کی تفصیلات مانگی تو کلبز نے کافی تاخیر کا مظاہرہ کیا ، اور پی سی بی کو 2 دفعہ تاریخ ہی آگے بڑھانی پڑی ، اس میں بعض ایسوسی ایشنز کا بھی قصور تھا کہ انہوں نے کلبز کو بروقت مطلع ہی نہیں کیا، لیکن زیادہ تر دیکھنے میں آیا کہ کلبزکے اپنے پاس کھلاڑی ہی نہیں تھے کہ وہ پی سی بی کی طلب کی گئی فہرست کو پورا کرتے ، اکثر اضلاع میں تمام رجسٹرڈ کلبز نے اپنے کاغذات ہی جمع نہیں کرائے ۔
ایک ایسے ٹورنامنٹ میں جہاں کلبز کو کوئی فیس ادا نہیں کرنی، ایمپائر فیس ، سکورر فیس پی سی بی دے گی ، بالز بھی پی سی بی دے گی ، اور گرائونڈ دینا بھی پی سی بی کی ذمہ داری ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ کلبز اپنے کھلاڑیوں کے نام نہیں دے پائے ۔ ہم پی سی بی پہ تو تنقید کرتے ہیں عدم توجہی کی لیکن ایسے کلبز کو یقینا کوئی حق نہیں کہ وہ اپنے آپ کو پی سی بی سے منسلک کریں ۔ اگر ایک کلب بیس پچیس کھلاڑی بھی نہیں رکھتا تو اسے یقیناً کلبز کی لسٹ سے باہر کردینا چاہیے ۔
ان چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے پی سی بی کو یقیناً ضرورت ہے کہ اپنے سکروٹنی کے عمل پہ نظر ثانی کرے ، اگر کلبز کھلاڑی پورے نہیں کر پارہے تو اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ پی سی بی جو سکروٹنی کرتی ہے اس میں سقم موجود ہے اور بوگس کلبز سکروٹنی کمیٹی کو دھوکا دیتے ہیں ۔ یا پھر کمیٹی اپنا کام صحیح طریقے سے نہیں کرتی ۔ اس کی وجوہات سیاسی ہو یا کچھ اور ، لیکن کرکٹ کا نقصان ہو رہا ہے ۔
پی سی بی نے پچھلے 6 ماہ میں گراس روٹ لیول پہ اتنی کرکٹ کرا دی ہے کہ جتنی کئی عشروں میں بھی نہیں ہوئی ۔ کلب چیمپیئن شپ ، سکول چیمپیئن شپ ، انڈر 13 اور اب پیپسی کے تعاون سے انڈر 19۔ اور یہ تمام کرکٹ اس نارمل ضلع اور ریجن کرکٹ کے علاوہ ہے جو پی سی بی ہر سال کراتی ہے ۔ اس لیے پی سی بی کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہے اور خوشی کی بات ہے کہ پی سی بی نے گراس روٹ لیول پہ عملی اقدامات کا آغاز کیا ۔ کلب کرکٹ سے منسلک لوگوں کا بھی فرض ہے کہ اپنے اندر سے کالی بھیڑوں کا صفایا کریں اور کرکٹرز کے اچھے مستقبل کے لیے پی سی بی کا ساتھ دیں ۔ سیاست سے بالاتر ہو کر یقینی معنوں میں کام کرنے والے لوگوں کو آگے لائیں ، اور پی سی بی کو بھی شاید اب کافی آسانی ہو جائے ، بوگس کلبز ڈھونڈنے میں ۔ ویسے تو اگر یہ چیمپیئن شپ سال میں دو دفعہ کرائی جائے تو سال میں بوگس کلبز کا صفایا ہو جائے گا یا پھر وہ کام کرنے لگ جائیں گے ۔
پی سی بی کے گیم ڈیویلپمنٹ اور ان کے ہیڈ اعزاز سید صاحب یقیناً ، کرکٹ میں ہل چل پیدا کرنے پہ مبارکباد کے مستحق ہیں جن کی کوششوں سے پشین سے لے کر کشمیر تک کلب کرکٹ میں جان پڑ گئی ہے ۔ مدثر نزر اپنے تمام تر تجربہ کے ساتھ یوتھ کرکٹ کے لیے بہت ہی مفید ثابت ہو رہے ہیں ۔ اور پی سی بی کو ان کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے ۔ حتی الوسع کوشش ہونی چاہیے کہ فیتا مافیا ان کو مایوس کرنے کا باعث نہ بن جائیں ۔
بہ شکریہ: کلب انفو ڈاٹ کام