اگر نمازی گھٹ رہے ہوں تو اللہ کا پیغام نعوذباللہ غلط نہیں۔ ۔ بلاوا غلط نہیں۔ ۔ ۔ نمازیوں کو سوچنا چاہیے کہ کہیں ان کا کردار ایسا تو نہیں جس سے دوسرے بدظن ہو رہے ہوں۔ ۔ ۔ کہیں ہم اللہ کے پیغام کو پھیلانے کی بجائے اس کی رکاوٹ تو نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ایک دفعہ نظر ضرور مارنی چاہیے اپنے گریبان میں۔ ۔ ۔ ۔ کردار پہ اور نیت پہ۔
جماعت اسلامی، مولانا مودودی کے وارث جو آخری صدی کے بہت بڑے عالم اور مفسر، جن کو تاریخ شائد وہ مقام دے گی جو ہم نے نہیں دیا۔ لیکن سیاسی پودا جو انہوں نے لگایا اس نے پھل کم ہی دیا۔ مذہبی جماعتیں بالعموم اور جماعت اسلامی بالخصوص اسلامی نظام کا نعرہ لگا تے آرہے ہیں لیکن ناکام رہے، ایم ایم اے کی ایک صوبے میں حکومت کے علاوہ۔ حالیہ انتخاب این اے 120 شائد ان کی سیاسی پوزیشن کامکمل احاطہ تو نہیں کرتے لیکن 600 سے کم ووٹ، ان کی ناکامی کی طرف اشارہ ضرور کرتے ہیں۔ یہ لمحہ فکریہ ہے ہمارے لئے کہ "اسلام" کے ضابطے اور نظام کا ایجنڈا لے کے اٹھنے والے ناکام کیوں ہیں۔ لوگ ان کا ساتھ کیوں نہیں دے رہے۔ کیا اس نظام کے نفاذ سے لوگ متنفر ہیں۔ اور نہیں چاہتے کہ اسلامی نظام نافذ ہو۔ ؟ ایسا نہیں ہے بلکہ لوگ اس نعرے کو لے کے اٹھنے والوں سے متنفر ہوتے جا رہے ہیں۔ جس کا ہلکہ سا اشارہ اس انتخاب میں نظر آیا ہے۔
پیغام جتنا بھی اچھا ہو۔ اس کے ماننے والوں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ اگر آپ کا پیغام اسلامی نظام کا نفاذ ہے تو آپ کو اپنے عمل اور کردار سے ثابت کرنا ہو گا کہ آپ ہی وہ ہیں جو یہ نظام نافذ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ ناکام ہیں تو اللہ معاف کرے مطلب یہ نہیں کہ نظام ریجیکٹ کر دیا لوگوں نے۔ آپ کو دیکھ کہ لوگوں کو نہیں لگتا کہ آپ وہ نظام لانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اس مایوسی کواللہ کے نظام کے خلاف لوگوں کی بغاوت نہ سمجھیں بلکہ اپنے کردار پہ نظر ڈالیں۔
جماعت اسلامی کو من پسند سپورٹ نہ ملنے کی ایک دلیل یہ ہے کہ ہم لوگ بحثیت مجموعی کرپٹ لوگ ہیں اور اسلامی نظام ہمیں سوٹ نہیں کرتا۔ اس لئے ہم اس کا نفاذ نہیں چاہتے۔ مانا کہ ہمارے معاشرے میں بہت ساری برائیاں پائی جاتی ہیں لیکن اگر معاشرے کی یہ خرابیاں ہی اسلامی نظام کے لانے میں رکاوٹ ہیں تو پھر اسلامی نظام کبھی بھی، کہیں بھی نافذنہ ہوتا۔ ۔ اور نہ ہی اس کا کوئی فائدہ ہے۔ ۔ ۔ اچھے نظام کی ضرورت ہی وہاں ہوتی ہے جہاں یہ خرابیاں پائی جاتی ہیں۔ ۔ کیا جماعت اسلامی۔ ۔ اسلامی نظام وہاں لائے گی جہاں یہ ساری خرابیاں نہ ہوں اور لوگ کرپٹ نہ ہوں۔ ۔ ۔ چور نہ ہوں۔ ۔ ۔ معافی چاہتا ہوں وہاں شائد اس کی ضرورت ہی نہ ہو
عرض یہ ہے کہ جو لوگ خرابیوں کی وجہ ہیں اگر نظام کے نفاذ کے لئے ان کی ہی ضرورت ہے تو پھراسلامی نظام کبھی نافذ نہیں ہو سکے گا۔ ۔ ۔ لیکن میرا اور یقینا آپ کا بھی یہ ایمان ہے کہ اسلامی نظام نافذ ہو سکتا ہے اور ہوا ہے اس کی مثالیں موجود ہیں۔ اگر پوری ایمانداری سے ایماندار لوگ یہ کوشش کریں گے تو ہو گا۔ لیکن اس کے لئے آپ کو مثال بننا پڑے گا۔ لمبا راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔ تا کہ لوگ آپ کے نام کے ساتھ عزت اور احترام محسوس کریں۔ آپ کو تین چار ورازتوں اور وقتی فائدوں سے بالاتر ہونا پڑے گا۔ اپنے اندر برداشت پیدا کرنی پڑے گی۔ ۔ ۔ اقتدار کی ہوس کا اللہ کے نظام کے تابع کرکے دکھانا پڑے گا۔ خوف، لالچ یا ہوس کی وجہ سے طالع آزماوں کے لئے خریدی ہوئی چیز بننے سے پرہیز کرنا پڑے گا۔ ۔ ۔ پھر اسی معاشرے سےآپ کو سپورٹ ملے گی۔ میرا ایمان ہے کہ یہ معاشرہ کفار مکہ کے معاشرے سے زیادہ کفر اور اندھیرے میں ڈوباہو ا نہیں ہے