اس ملک خداداد کو اللہ نے بہت نوازا ہے، قدرتی وسائل، بہترین موسم اور باصلاحیت لوگ۔ ایسے ایسے نابغہ روزگارلوگوں نے اس ملک میں جنم لیا کہ جسے پوری دنیا نے قدرومنزلت سے دیکھا۔ ڈاکڑ عبدالسلام، ڈاکٹر قدیر جیسے عظیم سائنسدان، عبدالستار ایدھی جیسے باعزت سوشل ورکر، جہانگیر خان، عمران خان جیسے شہرہ آفاق کھلاڑی، جسٹس کارنیلیس جیسے سکہ قانون دان، جنرل یحیٰی اور جنرل مشرف جیسے بہادر فوجی۔ لیکن بدقسمتی سے ہمیں کوئی چج کا سیاستدان میسر نہ آسکا۔ ہم اس معاملے میں بدقسمت رہے۔ اور ہمارے حصے میں غدار اور نا اہل سیاستدان ہے آئے۔
اس صدی کے سب سے بڑے سیاستدان کو جس نے بغیر خون بہائے سب سے بڑی ریاست کا قیام عمل میں لایا جو 1400 سال میں اللہ کے نام پہ قائم ہونے والی ریاست مدینہ کے بعد دوسری ریاست تھی۔ ایک ریوڑ اور جم غفیر کو ایک قوم کی شکل دینے والے قائد، جس کی اہلیت کے آگے وہ گورا سر نگوں ہو گیا جس گورے کے سامنے آدھی سے زیادہ دنیا سرنگوں تھی۔ اس قائد کے اہلیت پہ ہم نے ایک سوالیہ نشان اس وقت لگا دیا جب وہ ایک پھاٹک پہ ایک ایمبولینس میں دم توڑ گئے۔ یہ ہماری نااہلی تھی جس کو دنیا کا اہل ترین آدمی، اہلیت میں بدلتے بدلتے اس دنیا کے لئے نا اہل ہو گیا۔
پھر ہمیں ایک اور نا اہل سیاستدان میسرآیا، لیاقت علی خان، 50 مہینے ہم نے اس کو برداشت کیا اور آخر کار اس کی پیوند لگی قمیض پہ نااہلی کی مہر گولی کی شکل میں ثبت کر دی۔ آج تک اس مرد جری کا نام مخفی ہے جس نے یہ کارنامہ سرانجام دیا۔ اس کے بعد نا اہل سیاستدانوں کی ایک لسٹ ہے جن کو فالج زدہ اہل گورنر جنرل نے ضرورت پڑنے پہ اہلیت اور نا اہلیت کے سرٹیفکیٹ دیئے۔ خواجہ ناظم الدین، محمد علی بوگرہ، چودھری محمد علی، حسین شہید سہروردی، آئی آئی چندریگر، فیروز خان نون۔ یہ سارے لوگ تحریک آزادی میں شامل تھے اور قائد اعظم کے ساتھی تھے لیکن تمام کہ تمام نا اہل۔
مفلوج غلام محمد نے پوری سیاسی عمل کو مفلوج کیے رکھا۔ آخر ان کے پاس کون سی طاقت تھی۔ وہی طاقت جس کو اس وقت سے ہم "اسٹیبلشمنٹ" کے نام سے جانتے ہیں۔ ایوب خان، فیلڈ مارشل، گورنرجنرل کے ہاتھ اور دماغ تھے۔ آخرکار انہوں نے بیک سے فرنٹ سٹیج پہ آنے کا فیصلہ کیا۔ اور سیاسی نظام لپیٹ کہ فوجی رول کا اعلان کیا۔ اس طرح ہمیں پہلی دفعہ ایک "اہل قیادت " ملی۔ اور پاکستانی عوام کو احساس ہوا کہ ایک اچھی قیادت ہوتی کیسی ہے۔ سیاسی سرگرمیوں پہ پابندی ایسے ہی تھی جیسے آپ فوج کا "پی ایم اے " بند کر دیں۔ ایبڈو لگا کہ سیاستدانوں کو سیلیکٹیو احتساب سے پہلی دفعہ آشنا کیا گیا۔ تھوڑے عرصے کے بعد "صاحب " کو من ورنجن کی ضرورت پیش آئی تو سیاسی سرگرمیوں کے آغاز کا خیال آیا لیکن بالکل پراپر کمانڈ سسٹم کے ساتھ۔ بی ڈی ممبرز کا طریقہ لایا گیا تا کہ ان کی پریڈ کرانے میں آسانی ہو۔ عوام میں ایوب خان کی "مقبولیت" عروج پہ تھی۔ عوام نے جو بھی ممبر بنایا وہ اس "مقبولیت " کی طرف کھنچا چلا گیا، جس نے کھنچنے میں دلچسپی نہیں دکھائی اس کو کھینچا گیا۔ اور اس مقبولیت کے گھوڑے پہ سوار ہو کہ پاکستان کے پہلے "اہل" ڈکٹیٹر نے اپنی جنریشن کی آخری نمائندہ "نا اہل " مادر ملت فاطمہ جناح کو شکست فاش دے کہ مستقبل کی وہ تصویر کشی کی کہ جس میں آج تک اہل اسٹیبلشمنٹ رنگ بھر رہی ہے۔
ایوب خان صاحب جب 1965 کےبعد اپنی اہلیت میں تھوڑا ضعف محسوس کرنے لگے تو ان کا نظر انتخاب اپنے سے بھی زیادہ اہل یحیٰی خان پہ پڑی۔ ان کی اہلیت پہ جس کو شک ہو وہ محترمہ نورجہان اور جنرل رانی سے اس سلسلے میں معلومات حاصل کر سکتا ہے۔ ایک دور دراز علاقے کو جو آپ کے لئے مسلسل درد سر بنا ہو اس سے چھٹکارا یقینا ایک اہلیت بھرا دماغ ہی پا سکتا تھا۔ یہ ایک مشکل فیصلہ تھا پر ملک و قوم کے مفاد میں اہل حکمرانوں نے بنگلہ دیش بنا دیا۔ تھوڑا بہت نقصان ہوا اور چند فوجیوں نے ٹایئگر نیازی کی اہل قیادت میں ہتھیار ڈال دئیے۔ بعض نااہل لوگوں کا کہنا ہے کہ 96 ہزار فوجیوں نے تاریخ میں کبھی ہتھیار نہیں ڈالے۔ ان بلڈی نا اہل لوگوں کو کون سمجھائے کہ ایک تاریخ "رقم" ہوئی۔ وہ اس پہ بھی تنقید کرتے ہیں۔ حالانکہ سٹریٹیجیکلی 96 ہزار لوگوں کا ایک الگ تھلگ علاقے میں لڑنے کا کیا فائدہ، جب کہ آپ انڈین فوج کے میس میں آرام کرسکتے ہوں اور انڈین جنرلز کو "گندے لطیفے " سنا سکیں۔ آج لوگ حیران ہیں کہ بھتیجے میں گندے میسج بھیجنے کی عادت چچا سے کیسے سرائت کر سکتی ہے۔ لیکن یہ ٹیلنٹ اب ختم ہوتا جا رہا ہے۔
اہل قیادت اتنے بڑے بڑے فیصلے اس قوم کے حق میں کرنے کے بعد شائد اکتا گئی تو "ڈرٹی ورک" کے لئے ایک نااہل کو ٹرائی کرنے کا فیصلہ ہوا۔ وہ نا اہل آدمی ذوالفقار علی بھٹو 96 ہزار آقا واپس لایا، اس کا فرض تھا کیونکہ آقا سے وفاداری پہلی شرط ہے۔ اس نا اہل نے اپنی نااہلیوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ بھلا اسلامی ملکوں کے عیاش حکمرانوں کو ایک پلیٹ فارم پہ اکٹھا کرنے کا کیا فائدہ ؟ پھر نیوکلئئر پاور بننے کے لئے گورے آقا سے جھگڑا۔ نا اہلی پہ نا اہلی۔ آخر کو حقیقی اہل وارثوں کا پیمانہ لبریز ہوا۔ اس نا اہل اور غدار وزیر اعظم کو اس کے انجام تک پہنچا دیا۔ چونکہ یہ پہلا نااہل تھا جس نے اقتدار کی کرسی کو اپنا سمجھا وہ عوام کے ووٹ کو سرچشمہ خیال کر رہا تھا، سو اس سر کو کاٹنا ضروری تھا کہ ایسا خیال پیدا نہ ہو۔ سو اسے لٹکا دیا گیا کیونکہ سر کاٹنے کا طریقہ پرانا ہو گیا۔
جنرل ضیاالحق اگلے 10 سال تک اپنی اہلیت سے ملک چلاتے رہے، لسانیت اور فرقہ وارایت کی ضرورت پڑی تو بالکل نہیں گھبرائے کیونکہ اہلیت ہی وہ ہتھیار ہے جس سے آپ بہادر فیصلے لے سکتے ہیں۔ ہومیوپیتھک جونیجو بھی جی حضوری کے باوجود نا اہل ثابت ہوا۔ آخر کار ضیا مرحوم فضا میں تحلیل ہوے اور اپنی تمام تر اہلیت کے باوجود آج تک باقی اہل یہ پتہ لگانے میں ناکام ہیں کہ ضیا مرحوم حکومتیں تحلیل کرتے کرتے خود تحلیل کیسے ہو گئے۔ یہ ابھی بھی ایک راز ہے۔
اب کی دفعہ فیصلہ یہ ہوا کہ پیچھے رہ کر ان نا اہلوں کو مینچ کیا جائے، دو نااہلوں بے نظیر اور نواز شریف کو دو دودفعہ موقع دیا گیا۔ پر یہ لوگ سڑکیں، آپٹک فائبر، اور بجلی بنانے میں لگے رہے۔ اپنی اہلیت بڑھانے پہ توجہ نہ دی۔ آخر کار اتنا بڑھ گئے کہ صاحب سے سوال کرنے لگے۔ اور پھر وہ لمحہ تو قیامت تھا جب ایک ملازم نے اپنا آقا تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ نا اہلیت کی ایسی مثال۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس مثال کو دردناک مثال میں بدلنے کی تیاری ہوئی لیکن بھٹو کی روح جو آج تک پیچھا کر رہی تھی۔ اس سے سبق سیکھ کر صرف ملک بدری پہ اکتفا کیا گیا۔ نااہل، غدار اور نا شکرگزار ملازمین کو دیس نکالا ملا۔ ایک دفعہ پھر اہل قیادت جنرل مشرف کی قیادت میں خود چارج لینے کے لئے مجبور ہو گئی۔
احتساب کا آغاز ہوا۔ پورے انہماک سے کوشش ہوئی کہ یہ سیلیکٹیو ہی رہے۔ لیکن دنیا اب ڈکٹیٹر شپ کو پسند نہیں کرتی، ان کی بے وقوفی پر ہمیں اس کے ساتھ گزارہ کرنا تھا۔ ایک دفعہ پھر ہومیوپیتھک جونیجو ٹائپ وزیر اعظم لایا گیا۔ ظفراللہ جمالی، قوی امید تھی کہ وہ اہل ثابت ہوں گے پر جس آدمی کو فاطمہ جناح کی گاڑی کے پائدان پہ کھڑا ہونے پہ فخر ہو وہ کبھی نہ کبھی ضرور اپنی نااہلی کا ثبوت دیتا ہے۔ ایسا ہی ہوا اور ایک گورا ٹائپ بینکر جس کو سرکاری تنخواہ کو بلین میں بدلنا آتا تھا۔ اس کے تجربے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی۔ شوکت عزیز لایا گیا۔ بہ احسن طریقے سے اپنا دور مکمل کیا۔ اور اپنی اہلیت کو سٹاک مارکیٹ کی زیر وزبر، اور صاحب کے بینک بیلنس کو ضرب سے ثابت کیا۔ برا ہو افتخار چوہدری کا جو صاحب کے انگوٹھے تلے چین کی زندگی گزار رہا تھا۔ نے یکدم ایسی غلطی کی کہ تمام تر اہلیت کے باوجود اصل حکمرانوں کو وں کے لئے ایک سائڈ پہ ہونا پڑا۔ پر وہ مجاہد ہی کیا جو آخری گولی تک اپنوں سے لڑ نہ سکے، جاتے جاتے ایک نااہل کو راہ عدم بھیج دیا۔ ابھی عوام کی سینس ایسی نہیں کہ ان کو یہ سمجھایا جا سکے کہ غیروں سے آخری گولی تو کیا۔ توپخانے کے ہوتے بھی لڑنے میں کیا نقصانات ہیں جو اپنوں کو فتح کرنے میں نہیں ہیں۔
ایک دفعہ پھر تمام تر اہلیت کے باوجود ان نااہل لوگوں کے سامنے سرینڈر کرنا پڑا۔ لیکن کسی کو یہ غلط فہمی نہ رہے کہ نا اہل سیاستدان اس ملک کے مالک بن گئے ہیں۔ پھر مٹھی بھر سر پھری عوام کے اطمینان کو مدنظربھی رکھناتھا۔ ۔ اس لئے افتخار چوہدری کی طاقت کو استعمال کا فیصلہ کیا گیا۔ اور قانونی اور ٹیکنیکل طریقے سے ایک اور نااہل وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو گھر بھیج دیا گیا۔ باقی مدت کے لئے ایک اور نااہل کو بھگتنا پڑا۔
2013 میں من پسند اہل لوگوں کو آگے لانے کی پلاننگ کی گئی، فاختائیں اڑا کہ ایک تار پہ اکٹھی کی گئیں۔ لیکن برا ہو نااہلوں کا کہ عوام کو ان کے کام پسند آگئے۔ اور نہ چاہتے ہوئے بھی دو دفعہ صاحب کی طرف سے نا اہل قرار دئیے جانے والا نواز شریف پھر سینے پہ مونگ دلنے کو وزارت عظمٰی کی سیٹ پہ براجمان ہو گیا۔ پیچ وتاب اپنی جگہ پر عوام کے تیور کچھ اور تھے، صبر کیا کہ اب کی دفعہ دھونس اور دھمکی کا وہ اثر نہیں۔ ایک نئے پاور پلئرکو استعمال کرنے کا منصوبہ تو پہلے سے تھا کہ وہ صاحب کا موقف "بول" سکے، دوسروں کو بھی ننیندرا ڈالا گیا، اکثریت بکنے کو تیار تھی، سیاستدانوں کی اکثریت بہرحال خود سپردگی کی کیفیت میں آنے کو تیار نہ تھی۔ اور اپنے مہروں کو دھاندلی کا لولی پاپ دے کہ آگے بڑھایا گیا۔ شہ رگ سے پکڑ لیا لیکن یہ نا اہل انسان سب سیاستدانوں کے آگے تو لیٹ گیا۔ صاحب کے آگے جھکنے کو تیار نہیں تھا۔ بہتیرا زور لگایا۔ لیکن آخر کار پہلی دفعہ اپنی اہلیت کے ساتھ بیرکوں میں واپس لوٹنا پڑا۔
زخم کاری اور انا بہت بڑی ہو تو سمجھو، آگ ہے آگ۔ کوئی نہیں یہ پسپائی برداشت کر لی پر عبرت کا نشان بنا کہ چھوڑنے کا فیصلہ ہوا۔ نیا شکنجہ، افتخار چوہدری کے پہلوان کو پی سی او تڑکے کے ساتھ ایک دفعہ پھر تیار کیا گیا۔ بساط بچھ گئی۔ موقع پرست اور انا پرست سیاستدان ہمیشہ سے پسندیدہ ہتھیار رہے تھے۔ اس کو چارے کے طور پہ استعمال کیا۔ کردارکشی کی ایک لمبی داستان۔ عدالت کے احترام کے نام پہ ایک دفعہ پھر اپنے پورے خاندان کے ساتھ انصاف کا بول بالا کرنے کے چکر میں خجل ہو گیا۔ وہی عدالت جو ایک بھگوڑے جرنیل کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنے سے قاصر تھی۔ آج ایک سویلین وزیراعظم پہ سیخ پا۔ اس کے تین نسلوں کے حساب سے اتنا بھی برآمد نہ کر سکے جتنا ایک ریٹائرڈ بریگیڈیر کے ڈی ایچ اے میں 2 کنال کی کوٹھی سے نکل آئے۔ شائد 2 کنال کی کوٹھی بھی نہیں۔
لیکن سوال انصاف کا نہیں، سوال ملکی مفاد کا بھی نہیں۔ شائد احتساب کا بھی نہیں۔ اس نااہل انسان نے پاکستان کے واحد اہل ادارے کو پسپا کرنے پہ مجبور کیا۔ جس نے کبھی اپنوں کے سامنے پسپا ہونا نہیں سیکھا۔ جب اربوں کی کرپشن پہ عربوں کے ساتھ کے باوجود بھی کچھ ثابت نہ کر سکے تو پھر اقامہ کے دس ہزار درہم کی کھنڈی چھری سے نااہل شخص کی قربانی کر دی گی۔ مزید بھی مشکیں کسی جا رہی ہیں۔ پیغام واضح ہے، کوئی سویلین وزیر اعظم محب وطن اور اہل نہیں۔ اگر بولو گے تو تم نہیں تمہارے خاندان کے سارے راستے بند کر دیئے جائیں گے۔ ایک کاروباری آدمی اب آرام سے راے ونڈ میں زندگی کے باقی دن گنے گا اور ہر تاریخ پہ حاضری دے گا۔ ۔ ۔ نااہلوں کی اوقا ت ہی یہی ہے اور نا اہل مری میں گھر کو روانہ۔ مشن ختم شد، فوجی بگل بج گیا۔
لیکن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہانی ابھی باقی ہے۔ نا اہل کو گھر تو بھیج دیا پر اس کے گھر جانے پہ ایک نئے کھیل کا سامنا ہے وہ گھر تو گیا پر جی ٹی روڈ سے۔ پہلی دفعہ لوگوں کو اپنے ووٹ کی بے حرمتی محسوس ہوئی۔ اورعوام محسوس کر رہی ہے کہ نااہل ہمارے وزیر اعظم نہیں ہم ہوتے ہیں انصاف کے نام پہ ہم ایک اور ڈکٹیٹر نہیں بننے دیں گے اس احساس نے جنم لینا شروع کیا ہے۔ ۔ اس نااہل کے لئے لوگ سڑکوں پہ نکل آئے ہیں۔ ابھی ٹی وی کیمرے اس کے جلوس سے 4 کلومیٹر پیچھے چلانے یا کیبل بند کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ سوچنا پڑے گا کہ ملک بڑا ہے یا آپ کی انا۔ اہل افراد صرف ایک ادارے میں نہیں پائے جاتے۔ یہ ایک نئی جنگ کا نکتہ آغاز۔ شائد آخری جنگ کا۔