اس ملک کی سول اشرافیہ جتنا بھی شرف حاصل کرلے وہ کبھی "مشرف" نہیں ہو سکتی۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو 1958 سے آج تک ہمارے گلے کی پھانس بنی ہوئی ہے۔ جس نے بھی اس کو بدلنے کی کوشش کی وہ یا تو زمین سے اٹھا دیا گیا یا سرزمین سے اٹھا دیا گیا۔ جس کو زندگی نے دوسرا موقعہ دیا وہ اس حقیقت کو تسلیم کر کے ہی آگے بڑھ رہا ہے کیونکہ شائد حجاز مقدس جانا ہر مسلمان کا خواب تو ہو سکتا ہے پر وطن واپسی کی خواہش بھی اتنی ہی مضبوط ہوتی ہے۔ اور عمر کے اس حصے میں شائد اتنا انتظار ممکن نہ ہو۔
با وردی اشرافیہ کا یہ حصار توڑنا بظآہر ناممکن دکھائی دیتا ہے کیونکہ 8 سال میں سیاستدانوں کی کوششوں کے باوجود آج بھی سولین کو پانسہ پلٹنے کی، ڈوریں ہلانے کی وہ صلاحیتیں حاصل نہیں ہو سکیں جو وردی میں ایک سطحی ذہانت رکھنے والے کے پاس بھی ہو سکتی ہیں۔ سیاستدان اپنی سی کوشش لگے ہیں پر وہ جو کہتے ہیں نا کہ "جب تک لالچی زندہ ہیں، نوسرباز بھوکے نہیں مر سکتے" ایسے ہی جب تک موقع پرست اور چھوٹے ویژن والے سیاستدان موجود ہیں اس وقت تک یہ حصار قائم رہے گا۔ اور پتلی تماشہ جاری ہے، مہرے بدل جاتے ہیں ، کہانی وہی دہرائی جاتی ہے۔
زیادہ افسوسناک امر یہ ہے کہ ان ناعاقبت اندیش سیاستدانوں میں پہلے چند بہت چھوٹی سیاسی جماعتوں کے لیڈران ہوتے تھے جن کو ووٹ کے زور سے اقتدار میں آنا ممکن دکھائی نہیں دیتا تھا۔ اور وہ مناسب خیال یہی کرتے تھے کہ کسی طرح اس چھتری کا سہارا لے کے مقتدر بن جائیں۔ لیکن اب کی دفعہ مہرہ بڑا ہے۔ ملک کی تیسری بڑی قوت بھی ہے ایک صوبے کا حکمران ہے، تھوڑا صبر ہوتو شائد اگلی دفعہ کی مخلوط وفاقی حکومت کا حصہ یا حکمران بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن اپنی خواہش پہ قابو نہ پانے کی وجہ سے ان کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے جو یہ صرف اسے ذریعہ سمجھتے ہیں اپنی ڈیل کو پکا کرنے کے لئے۔ پریشر ڈالنے کے لئے۔ اس کی بھی ہر دفعہ خالی ہاتھ لوٹنا شائد عادت بن گئی ہے۔ ویسے بھی یہ روائت رہی ہے جو بھی سویلین گورنمنٹ کو ہٹانے کا موجب بنا اس کے سر پہ کبھی اقتدار کی ہما نے استراحت نہیں کی۔
عوام کا ایک بڑا طبقہ ہمیشہ ان کی لائی تبدیلی کو خوش آمدید کہتا ہے اور جانے کی بھی خوشی منانے کو تیار رہتا ہے۔ سو جوتے اور سو پیاز کا یہ سلسلہ جاری ہے پچھلے 69 سال سے۔ لیکن کچھ کچھ سمجھ آرہی ہے، انہیں بھی کہ اب ٹیک اوور کی بجائے صرف کام نکلواتے ہیں اور سیدھی انگلیوں سے نہ نکل رہا تو ٹیرھی کر کے کبھی دھرنا اور کبھی لاک ڈاون کر دیتے ہیں۔ یا پھر پٹاری میں سے میموگیٹ یا ڈان لیکس نکال لاتے ہیں۔
ڈان لیکس کا قصہ بھی عجیب ہے، ایک میٹنگ کی خبر لیک ہوئی کہ ایک وزیر اعلٰی اور خفیہ ایجنسی کے سربراہ کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔ الزام خفیہ ایجنسی پہ تھا کہ وہ کالعدم تنظیموں کے کارکنان کو چھڑا لے جاتے ہیں۔ یہ خبر لیک ہونا حکومت کے لئے ایک داغ ہے کہ اتنی اہم میٹنگ کی اتنی اہم بحث کیسے باہر گئی۔ اس پہ لے دے بھی کافی ہوئ اور لینا دینا بھی۔ پر اہم سوال کوئی نہیں اٹھا رہا کہ یہ الزام خفیہ ایجنسی پہ جو لگا ہے کیا وہ سچا ہے؟ کسی نے ان سے بھی پوچھا کہ ملک میں امن و امان کے دشمنوں کو آپ بچانا کیوں چاہتے ہیں؟ اور اگر الزام غلط ہے تو اس وزیر اعلٰی کو کٹہرے میں لائیں کہ وہ کس بنیاد پہ یہ الزام لگا رہا ہے۔ لیکن یہ سوالات کون کرے اور کس سے کرے؟ کرنے والے اپنا پرائم ٹائم پہ وقت بیچتے ہیں اور اپنا قلم اور زبان بیچتے ہیں۔ اور کریں کس سے؟ سوال حکومت پہ یا سیاستدانوں پہ ہوتا تو ان کے گریبان سے پکڑ کے پوچھا جاتا۔ اور رات 7 بجے سے 11 بجے تک ہر چینل پہ سیاستدانوں کو سزا دی جاتی اور آپ کو اینکرز کی شکل میں چیف جسٹس، ان کو لٹکاتے نظر آ جاتے۔ مگر جہاں بوٹوں کی لمبائی ٹخنوں سے اوپر ہو جاتی ہے وہاں سوال کرنے والے بڑے بڑے زبان درازوں کی زبان لٹک جاتی ہے۔
یہ سمجھنے کی ضرورت تو عوام کو ہے کہ جس کا جو کام ہے اس کو کرنا چاہیے۔ جیسے ہمیں پشاور کور کمانڈر کے طور پہ احسن اقبال یا آئی ایس آئی چیف کے طور پہ اعتزاز احسن قبو ل نہیں ایسے ہی ہمیں ایڈمرل منصورالحق بھی وزیر خزانہ کے طور پہ قبول نہیں۔ یا عاصم باجوہ صاحب بھی بطور چیف جسٹس قبول نہیں۔ ہر کسی کو اپنا کام کرنا چاہیے۔ اورآغاز عوام سے ہی ہونا چاہئے کہ وہ پہلی کڑی ہیں۔ عوام کا اپنا کام یہ ہے کہ وہ صحیح نمائندے منتخب کرکے بھیجیں اور پھر اس انتخاب پہ یقین رکھیں۔ اپنے منتخب شدہ لوگوں کو "سیدھآ" کرنے کے لئے پھر کسی اور کی طرف نہ دیکھیں۔
میری خوش فہمی سمجھیں لیکن اب ہی گرفت کچھ کمزور پڑتی نظر آتی ہے، وقت کے ساتھ ساتھ کچھ نہ کچھ تبدیلی آرہی ہے کہ قدرتی امر کو کوئی نہیں روک سکتا۔ اور ہر طاقت کو زوال ہے۔ اس کمزوری کی ایک مثال مشرف کا عدالت میں ٹرائل ہے۔ اس کا تصور ہی ممکن نہیں تھا ایک دو عشرے پہلے تک ۔اس کو ڈائرکٹ بچانا ممکن نہ لگا لیکن ابھی اتنا ضعف طاری نہیں ہوا اس لئے وہ میڈیکل کا سہارا لے کر آج بیرون ملک ٹھمکے لگا رہے ہیں۔ لیکن خود کو کمانڈو اور فائٹر کہہ کہ اپنے طاقتور ظاہر کرنے والے، شخص کے لئے اپنا امیچ برقرار رکھنا مشکل ہے اب۔ اور ساتھ ہی عوام کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ 5 لاکھ تنخواہ دار ملازموں کی بندوقوں کے زور پہ اپنے آپ کو سپر مین ثابت کرنا اور تن تنہا عدالت، جیل اور پولیس کا سامنا کرنا دو الگ الگ باتیں ہیں۔ اور اس میدان میں سیاستدان بہت آگے ہیں۔ وہ لڑے بھی، لٹکے بھی اور واپس بھی آئے۔ سیاستدانوں کو اپنے اندر مزید بہتری لانی ہے ، ابھی ان کے "مشرف" ہونے میں کچھ وقت لگے گا۔