۱۶؍مئی لکھنؤ: قادری ادبی فاونڈیشن دہلی کے زیر اہتما م’’سخن رنگ‘‘ کے عنوان سے نوشی جان (نزد یوپی پریس کلب )میں ایک ادبی شعری نشست منعقد ہوئی۔ قادری ادبی فاونڈیشن کے سکریٹری جناب زبیرا حمد قادری اپنی خاموشی طبیعتی کے ساتھ اردوزبان و ادب کی پرورش و پرداخت میںیقین رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک عرصے سے کسی نام و نمود اور وقتی ہنگامہ آرائی سے الگ اپنے انفرادی انداز سے ریاست اترپردیش کے دیگر شہروں میں اس طرح کی ادبی تقریبات کا انعقاد کرتے رہتے ہیں۔
اس منعقدہ ادبی نشست میں اردوادب سے قلبی و ذہنی وابستگی رکھنے والی شہر کی اہم شخصیات نے شرکت کی۔ خاص کر اردوکی مشترکہ تہذیب کی نمائندگی و شعروادب کو فروغ دینے والا گروپ ’’مخاطب فاؤنڈیشن ‘‘ کے بیشتر تخلیق کاروں کی شرکت خاص توجہ کا مرکز رہی۔ پوری ریاست میں اردو ادب کے فروغ کے نام پر بیشتر سرکاری و نیم سرکاری اداروں کی ادبی فعالیت اپنی ذاتی کفالت اور کاغذی کاروایوں اور، زرپرستی کے دائراہ امکان کے جواز اور سستی شہرت تک ہی محدود نظر آتی ہیں۔ جس کی وجہ سے اردوادب کاہونے والا ذاتی نقصان اب ایک وبائی بحران کے ساتھ اقتصادی صارفیت کا بھی شکار ہوتا ہوا محسوس ہونے لگا ہے۔ انھیں وجوہات کے سبب اردوادب کی اپنے خون دل سے آبیاری کرنے والی حساس طبیعت شخصیات اس طرح کی نشستوں سے دھیرے دھیرے کنارہ کش ہونے لگی ہیں۔ لہذا عصری تقاضوں کے پیش نظر اردو ادب کی ایک صحت مند ادبی روایت کی بازیابی کے لئے ’’سخن رنگ‘‘ جیسی نشست کا انعقاد وقت کی ایک اہم ضرورت بن چکی ہے۔ اس منعقدہ نشست کی سب سے انفرادی خصوصیت یہ رہی کہ اس کی سرپرستی پروفیسر انیس اشفاق جیسی اردوادب کی عظیم شخصیت نے فرمائی۔ جنھیں پوری اردودنیا میں ان کی ادبی خدمات کی وجہ سے محترم گردانا جاتا ہے۔ پروفیسر انیس اشفاق نے اپنے صدارتی تقریر میں اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ ایک عرصے سے اس شہر میں اردوکے نام پر ہونے والی تقریبات سے خود کو دور رکھا ہے۔ انھوں نے یہ اقدام اپنے لئے کیوں روا رکھا، اس پر انھوں نے کھل کر گفتگو کی، اس کے ساتھ انھوں نے وہاں پر موجود نوجوان تخلیق کاروں سے خاص کر شاعری کے رموز واوقاف، ترکیب سازی، علامت نگاری، صنعتوں کا استعمال، تلمیحات و استعارات، محاورات کا برمحل استعمال لفظوں کے تلازمات اور اس کے معنوی تعلیقات جیسے مباحث کو اپنی گفتگو کا مرکزی موضوع قرار دیا، اور نوواردان بساط سخن کو زبان و بیان کی بہت سی باریکیوں سے روشناس کرایا۔ خاص اپنی گفتگو کے دورانیے میں نئے لکھنے والے اور نو آموز شعرا کو اس بات کی تلقین فرمائی کہ سستی شہرت کے فریب کن راستوں سے خود کو بچاکر رکھیں، اس لئے کہ سستی شہرت ایک تخلیق کار کے ذہانت کی سب بڑی قاتل ہوتی ہے، اور اس عمل سے تخلیق کار خود کا زیاں کرتا ہے۔ پروفیسر انیس اشفا ق کی ان حکمت آمیز بیان کے مرموزاتی نکات سے وہاں پر موجود سبھی تخلیق کاروں کی آنکھیں ایک غیر یقینی امید کی چمک سے روشن ہوگئیں۔ وہاں پر موجود سامعین کے اصرار پر پروفیسر انیس اشفاق نے اپنی غزل بھی سامعین کو سنائی جسے لوگوں نے بڑی کشادہ قلبی کے ساتھ اپنی مشکورانہ ستائش سے بھر پور لطف اٹھایا۔
’’سخن رنگ‘‘ کے مہمان خصوصی ڈاکٹر ارشد جعفری (اورینٹل اسٹیٖڈ یز، عربک پرشین کے صدر اور لکھنؤ یونیورسٹی ٹیچر ایسوسیشن کے نائب صدر)نے وہاں پر موجود شرکا کو خطاب کیا۔ انھوں نے اپنے بیان میں اردو کی ہمہ گیر تہذیبی وراثت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اردو زبان صرف مسلمانوں کی زبان نہیں ہے۔ بلکہ یہ زبان ہمارے ملٹی کلچرل ملک کی ایک سکولر زبان ہے اسے مسلمانوں کی زبان کہنے کے بجائے خالص ہندوستانی زبان کہنا چاہئے، اس کے علاوہ اردوزبان سے متعلق اپنے معروضات کی بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ وضاحت فرمائی۔ اس پروگرام کی نظامت کے فرائض جناب ملک زادہ پرویز صاحب نے انتہائی موثر اور خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دی۔ نظامت کے انداز اور لب و لہجہ سے ان کے والد محترم پروفیسر ملک زادہ منظور احمد کی یاد تازہ ہوگئی۔ وہ لوگ جن کی سماعتیں پروفیسر ملک زادہ منظور احمد کی نظامت کی پُرشکوہ لہجے سے آشنا تھیں، انھوں نے اس بات کااظہار کیا، اور خاص کر پروفیسر انیس اشفاق نے اس بات کی تائید بھی فرمائی۔ اس پروگرام میں شہر کے علاوہ بیرون شہر سے آنے والے شعرا نے اپنے اشعار سے سامعین کو کافی محظوظ کیا۔ اس نشست میں شریک ہونے والے معتبر شعرا میں۔ جناب منیش شکلا، ڈاکٹر طارق قمر، جناب ابھیشک شکلا، جناب شاد مشرقی مرزا پوری، جناب زم زم بنارسی، محترمہ عایشہ ایوب گوہر(فاونڈر مخاطب گروپ) محترمہ حنا رضوی، محترمہ گیتانجلی، جناب قمر عباس قمر، جناب دیداراکبرپوری، جناب ظفر نقی، ڈاکٹر ایاز احمد، جناب سلمان خیال، جناب علی ساقی، جناب انکت بھدوریہ، شاہدکمال وغیرہ شامل تھے۔
’’سخن رنگ‘‘کے کنوینر شاہدکمال نے جناب خالد جمال بنارسی کی معاونت اور قادری ادبی فاونڈیشن دہلی کے سکریٹری جناب زبیر احمد قادری کی استعانت سے اس ادبی نشست کا مکمل انتظام وانصرام کیا۔ پروگرام کے اختتام پر شاہدکمال نے وہاں پر موجود سبھی شخصیات کا فردا فرداً شکریہ ادا کیا۔ نشست میں موجود کچھ شعرا کے کلام آپ بھی ملاحظہ کریں۔
میری آوارگی ہے میرے ہونے کی علامت
مجھے پھر اس سفر کے بعد بھی کوئی سفر ہے
منیش شکلا
ہماری آنکھ بظاہر جو ایک صحرا ہے
تمہارا ذکر کوئی چھیڑ دے تو صحرا ہے
ڈاکٹر طارق قمر
سیاہ رات کی سرحد کے پار لے گیا ہے
عجیب شخص تھا آنکھیں اُتار لے گیا ہے
ابھیشیک شکلا
اپنی آنکھوں کو کسی غم میں بھگوتا نہیں ہوں
اتنی وحشت مرے اندر ہے کہ روتا نہیں ہوں
قمر عباس قمر
میری ماں تو میری جنت کو لئے بیٹھی ہے
ایسا کر لو مرے پرکھوں کہ دعا تم رکھ لو
عائشہ ایوب گوہر
مرے بچوں کا یہ احساس ہے مجھ پر
مرے قدموں میں جنت ہوگئی ہے
حنا رضوی
جنوں کی بے سروسامانیاں ہیں اور میں ہوں
مرے کمرے میں بس تنہائیاں ہیں اور میں ہوں
دیدار اکبرپوری
کچھ ایسے راز چھپائے ہیں اُس نے مقتل میں
اگرمیں جان سے جاؤں تو جان جاؤں میں
ڈاکٹراحمد ایاز
ہے عجب سی دھوپ جس میں سر بسر لیٹا ہوں میں
گھر گیا ہوں یوں کہ اب خود بھی دھواں دکھتا ہوں میں
سلمان خیال
اور کچھ سوچیں طریقہ یہ پرانہ ہوگیا
توڑتے پتھر سے شیشہ اک زمانہ ہوگیا
ڈاکٹر شاد مشرقی مرزاپور
غربت مری احباب میں تقسیم نہ ہوجائے
اس ڈر سے کبھی پاؤں نہ چادر سے نکالا
زم زم رام نگری بنارس
جو کہہ رہے تھے مرا سر جھکا کے کاٹیں گے
وہ میرے سر کو سناں پر اٹھا کے چلنے لگے
علی ساقی