بزم میں آئے ہیں امید کے تارے لے کر
چاکِ دامان و گریبان کے خسارے لے کر
کیسی وحشت ہے کہ سہمے ہوئے لگتے ہیں خیال
بے اماں گزری ہے شب، درد تمھارے لے کر
دل سادہ کہ بہل جاتا ہے ارمانوں سے
شام وعدہ چلی آئی ہے نظارے لے کر
ایک تعبیر کا بھی لمس میسر نہ ہوا
ڈھل گئی عمر تو خوابوں کے سہارے لے کر
کون پاتال سے الفت کے گہر لائے کا
ڈوب جاتے ہیں سمندر بھی کنارے لے کر