اس جہان گرد کو منظر نہیں بھایا کوئی
ایسا لگتا ہے کہ آسیب کا سایا کوئی
بوجھ بن جائے مسافر تو اسے جانے دو
پاؤں میں وقت کے گرداب کو لایا کوئی
روز و شب ایک تصور میں بسر ہوتے ہیں
ہائے بے تابیِ دل آنکھ کو بھایا کوئی
گنگناتی ہے ہوا، رات کو بجتے ہیں کواڑ
رنگ خوشبو سے مہکتا ہوا آیا کوئی
جب بھی دیکھوں تو سوا اور نظر آتی ہے
عشق تجھ سے ہے کہ چڑھتی ہوئی چھایا کوئی
جاگتا رہتا ہے ہر وقت مری آنکھوں میں
بند آنکھوں میں تصور جو سمایا کوئی