کس سے کہیں یہ حال جو اپنا عجیب تھا
اے چارہ ساز دل سے مرے تو قریب تھا
کچھ بھی اثر یہ زہر ہلاہل نہ کر سکا
حیران مجھ پہ کتنا ہی میرا طبیب تھا
اس بزمِ دوستاں میں کوئی بھی نہ تھا مرا
جس سے رہا خلوص، مرا ہی رقیب تھا
وہ خواب جس کا رنگ سنہری رہا سدا
میرا نہ ہوسکا وہ کسی کا نصیب تھا
وہ شخص جس نے پیار کے موتی گنوا دیئے
اسباب کا نہیں، وہ نظر کا غریب تھا
حیرت نہیں جو کرچی مرا مان کر گیا
وہ بدگمان، شہرِ وفا کا نقیب تھا
اس کی نگاہِ ناز کے سب منتظر رہے
میرا فقط نہیں وہ سبھی کا حبیب تھا
اک عمر کے طویل سفر بعد یہ کھلا
منظر جو سامنے تھا وہ صورت صلیب تھا