صحرا کی گرم ریت پر چلتے چلتے اچانک ہی اُسے کہیں دور سے گڑ گڑاہٹ کی آواز سنائی دی، پلوشہ نے چاروں طرف نظر دوڑائی، کچھ نظر نہیں آیا۔
سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آواز کہاں سے آرہی ہے؟
صحرا میں جب ہوا تیز چلتی ہے تو آواز کی سمت کا تعین کرنا ممکن نہیں رہتا، آواز کبھی قریب سے آتی ہے اور کبھی ہوا کے جھکڑ آواز کو اپنے دوش پر کہیں دور لے جاتے ہیں۔
یااللہ! میں کہاں ڈھونڈوں اپنے بیٹے کو؟
پلوشہ یہ فیصلہ کر چکی تھی کہ اب وہ صرف اپنے بیٹے کے ساتھ ہی زندگی بسر کرے گی، خواہ زندگی کا سفر اکیلے ہی کاٹنا پڑے مگر یہ اِس وقت گڈو کہاں چلا گیا؟
کہیں وہ اپنے باپ کے پاس نہ چلا جائے!
نہیں، ایسا نہیں ہو سکتا۔ پلوشہ زور زور سے آواز لگانے لگی
گڈو۔۔! گڈو۔۔! ، صحرا کی تیز ہوا میں پلوشہ کی آواز بھی اپنے زاویے بدلتی کبھی واپس آ رہی تھی اور کبھی انجانے راستوں پر نکل رہی تھی۔
پتا نہیں گڈو تک میری آواز جا بھی رہی ہے کہ نہیں، اسی کشمکش میں پلوشہ کبھی ایک جانب بھاگتی اور کبھی دوسری جانب۔۔
آخر کار گڈو مل ہی گیا۔ ایک چٹان کے پیچھے گڈو بڑے انہماک سے کچھ دیکھ رہا تھا۔
پلوشہ گڈو پر برس پڑی:
کیا کر رہے ہو یہاں؟ میں کب سے تمہیں ڈھونڈ رہی تھی۔
گڈو نے نگاہیں اُٹھا کر ماں کو دیکھا، اُس کی بڑی بڑی خوبصورت اور معصوم آنکھوں میں حیرت کا ایک سمندر موجزن تھا۔ ماں کو پریشان دیکھ کر گڈو بھاگ کر ماں کے سینے سے جا لگا۔ پلوشہ کا سارا غصہ کا فور ہوگیا، پیار سے گڈو کے سر پر ہاتھ پھیرا:
کیا کر رہے ہو؟
گڈو نے مسکراتے ہوئے ماں کا ہاتھ پکڑا دیکھیے امی! یہ چونٹیوں کی فوج ہے، بالکل سیدھی لائن میں چل رہی ہے، گڈو نے چٹان کی سمت اشارہ کرتے ہوئے کہا میں بھی بڑا ہو کر فوجی بنوں گا، ابو کی طرح۔ پلوشہ نے گڈو کے گلابی ہونٹوں پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔
نہیں بیٹے میں ایسا نہیں ہونے دوں گی۔ گڈو نے حیران ہو کر ماں کی طرف دیکھا
پلوشہ کو لگا کہ جیسے گڈو کی حیران آنکھوں کے لیے یہ دنیا بہت چھوٹی ہے۔ پلوشہ نے اپنے بیٹے کے لیے دل سے دعا کی۔۔
اے اللہ میرے بیٹے کی آنکھوں کی حیرانی کو ہمیشہ قائم رکھنا، یہ حیرانی ہی تو ہے جو نئے جہان تلاش کرنے کے لیے اُکساتی ہے، میرا بیٹا نئے جہان تلاش کرے گا، ساری دنیا دیکھے گا، بہت سی خوشیاں اِس دنیا کو دان کرے گا۔
پلوشہ کو وہ رات اچھی طرح یاد ہے کہ جب صحراکی تیز ہواؤں میں اُس نے سخت بوٹوں کی دھمک سنی تھی۔ وہ سمجھی کہ شاید کوئی وہم ہے۔ صحرا کی تیز ہواؤں میں اکثر ایسی آوازیں بھی ہوتیں ہیں جن کا اہم ہونا ضروی نہیں ہوتا، تیز ہوائیں وہ سر گوشیاں بھی لے آتی ہیں جو کسی اور کا راز ہوتی ہیں۔
دروازے پر جب تواتر سے کھٹکھٹانے کی آوازیں آئیں تو پلوشہ نے اُٹھ کر دروازہ کھول دیا۔ چاند کی مدھم روشنی میں گاؤں کا نمبر دار اور اُس کے پیچھے کچھ فوجی نظر آئے۔
پلوشہ نے سوالیہ تاثرات کے ساتھ نمبر دار سے پو چھا کیا ہوا ہے؟
نمبر دار نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔
پیچھے کھڑے فوجی نے پوچھا: جہانداد کی زوجہ آپ ہیں؟
پلوشہ نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
فوجی نے کرب کے جذبات کو چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا؟
مبارک ہو! جہانداد نے ابدی زندگی پائی ہے، پلوشہ کو محسوس ہوا کہ جیسے صحرا کی منہ زور ہوائیں آوازوں کے ساتھ اُس کا وجود بھی اپنے ہمراہ کہیں دور اُڑا کر لے گئی ہیں، ہر طرف ریت ہی ریت ہے اور دور اُڑتے بگولے، آوازوں کا تعین کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ کون کیا کہہ رہا تھا؟
دیکھتے ہی دیکھتے پورا گاؤں اکٹھا ہوگیا، سسرال والے، میکے والے، جہانداد کے دوست احباب۔
سب اپنی اپنی بولی بول رہے تھے:
سنا ہے جہاں داد ڈرون کے حملے میں مارا گیا۔۔
ڈرون تو صرف دہشت گردوں کے لیے ہوتے ہیں، پھر جہاں داد کیسے مارا گیا؟
جہاں داد تو اِس ملک کا سپاہی تھا۔۔
صحرا میں آواز کا پتہ ہی نہیں چلتا کہ کہاں سے آ رہی ہے، جہاں داد کو بھی پتہ نہیں چلا کہ آواز کہاں سے آ رہی ہے اور وہ وہاں چلا گیا جہاں اُسے نہیں جانا چاہیے تھا، بچھڑنے کا دکھ کچھ کم ہوتا ہے جو صحرا کی ہوائیں مزید بھٹکانے آ جاتی ہیں۔
امی مجھے بہت بھوک لگی ہے۔
آوازوں کے اس دشت میں پلوشہ کو ایک ننھی سی آواز نے چونکا دیا، پلوشہ نے اپنے تین سالہ گڈو کی طرف دیکھا جو اپنی آنکھوں میں حیرانی کا ایک سمندر لیے اُس کی طرف ٹکر ٹکر دیکھ رہا تھا۔ پلوشہ کو جیسے ایک ہی جھٹکے میں ہوش آ گیا۔ چہار سو چلنے والی تیز ہوائیں جیسے تھم سی گئیں۔ پلوشہ نے اپنے گڈو کو گود میں اُٹھا لیا اور اُس کے لیے کھانے کا بندوبست کرنے میں لگ گئی۔
آوازوں کا طوفان تھما تو حقیقت کی کڑی دھوپ تھی اور تپتا صحرا، سسرال والوں کے اصرار پر پلوشہ اپنے ساس سسر کے گھر رہنے لگی، ارادہ تھا کہ عدت وہیں پوری کر ے گی، گڈو بھی بہت خوش تھا، سارا سارا دن اپنے دادا اور دادی سے لاڈ اُٹھواتا، گڈو کے قہقہوں سے گھر گونجتا رہتا، گڈو کو ہنستا مسکراتا دیکھ کر پلوشہ بھی مسکرانے لگتی، جانے والوں کے ساتھ زندگی ختم نہیں ہو جاتی، وقت تو آگے کی سمت ہی بڑھتا ہے۔
جہاں داد کی شہادت کے صلہ میں حکومت کی طرف سے گڈو کے نام ایک پلاٹ اور پلوشہ کے نام کچھ رقم پنشن بھی ملنے لگی تھی جو ماں بیٹے کی ضرورت کے لیے مناسب تھی، گزارا ٹھیک ہی ہو رہا تھا شکر اللہ کا کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلانے پڑ رہے تھے۔
پلوشہ جوان تھی، خوبصورت تھی مگر اُس کے جذبات تو جیسے صرف جہاں داد کے لیے ہی تھے، یاد الٰہی میں دل لگا کر پلوشہ نے مشیت ایزدی کے سامنے سر جھکا دیا، راتوں کے پچھلے پہروں میں اُٹھ کر وہ عبادت کرتے کرتے مُصلّے پر ہی سو جاتی اور خوابوں میں جہاں داد سے ڈھیروں باتیں کر تی، جی کا بوجھ ہلکا ہو جاتا۔
پھر ایک دن جب پلوشہ کے دیور نے اُسے پھولوں کے گہنے لا کر دیے تو وہ حیران سی ہو کر اُس کی طرف دیکھنے لگی، اپنے دیور کی آنکھوں میں عجیب سی چمک دیکھ کر وہ تو جیسے ڈر ہی گئی اور پھر ساس نے ایک دن پلوشہ سے کہہ ہی دیا:
دیکھو پلوشہ! میرا تو جوان بیٹا ہی جان سے گیا ہے، پلاٹ تمہارے بیٹے کے نام ملا ہے، تم ابھی جوان ہو، جہاں داد کے بھائی سے نکاح کر لو، گھر کی چیز گھر میں ہی رہ جائے گی۔
پلوشہ کو تو جیسے کسی بجلی کے ننگے تار نے چھو لیا۔
اُس رات پلوشہ نے رو رو کر جہاں داد سے اُس کے گھر والوں کی شکایت کی جو شاید وفا کا مطلب نہیں جانتے تھے، رشتوں کے تقدس سے ناواقف تھے، سسرال کا گھر اور اُس گھر کے سب در ودیوار پلوشہ کو اجنبی لگنے لگے، رات کی تاریکی میں پلوشہ نے اپنا مختصر سا سامان باندھا، پلاٹ کی فائل اُٹھائی، سوتے ہوئے گڈو کو کاندھے پر اُٹھایا اور سنسان گلی میں نکل آئی، ماں کا گھر کچھ ہی فاصلے پر تھا۔
ماں کے گھر پلوشہ کا استقبال آہوں اور سسکیوں سے ہوا، گھر کے سب افراد اپنی جوان بیٹی کے اُجڑ جانے پر نوحہ کناں تھے، باپ کے کاندھے کچھ اور زیادہ جھکے ہوئے سے لگ رہے تھے۔ پلوشہ کہاں جاتی؟ کس سے مدد مانگتی؟
زندگی کی گاڑی پھر سے سست روی سے چل پڑی، گھر میں شادی شدہ بھائی بھی رہتے تھے، پلوشہ اپنے بھائیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے سارا سار دن بھاوجوں کی خدمت کرتی تاکہ اپنے اِس گھر میں رہنے کا جواز پیدا کر سکے، بھائیوں کا ساجھا کاروبار تھا، کبھی اچھاچلتا اور کبھی مندی رہتی، پلوشہ کی جوان بیوگی اماں ابا کے سینے پر ایک پتھر کی طرح ہر لمحہ دھری رہتی، گھڑی کی ٹک ٹک کسی آنے والے طوفان کا پیش خیمہ لگتی تھی، ہواؤں کا طوفان جس میں سر گوشیاں وہاں پہنچ جاتی ہیں جہاں اُن کی کوئی منزل نہیں ہوتی، آنے والے دنوں میں کیا ہونے والا تھا اِس کی خبر تو کسی کو بھی نہیں تھی مگر گڈو کو ابھی اسکول بھیجنا تھا۔ پلوشہ گڈو کو ایک اچھا مستقبل دینا چاہتی تھی، وہ سوچتی تھی کہ گڈو کو شہر کے اسکول بھیجے گی۔ جہاں داد کی بھی یہی خواہش تھی۔
اور پھر جنگ کے سائے دن بہ دن سیاہ ہوتے چلے گئے، پلوشہ کے بھائیوں کا کاروبار دن بہ دن ٹھپ ہوتا چلا گیا، گھر میں کھانے پینے کی اشیاء کا بھی کال پڑنے لگا، پلوشہ سے جتنا ممکن ہوتا وہ میکے والوں کی مدد کر دیتی مگر گڈو کا ساتھ تھا، کچھ اپنے لیے پس انداز کرنا بھی ضروری تھا۔ بڑے بھائی نے پلوشہ کے سامنے ایک انوکھی تجویز رکھ دی۔
تم گڈو کے نام جو پلاٹ ہے وہ بیچ دو جو رقم حاصل ہوگی ہم اُس سے شہر میں کاروبار شروع کریں گے، تم ہمارے ساتھ ہی رہنا، ابھی تم جوان ہو، کوئی اچھا بر ملا تو تمہاری شادی کر دیں گے، گڈو ہمیشہ ہماری ذمہ داری رہے گا،۔ پلوشہ خالی نظروں سے اپنے بھائی کو تکے گئی۔
صحرا کی ہوائیں اتنی شدت سے چلیں کہ پلوشہ کے سر سے چادر اُتر گئی، پلوشہ کو محسوس ہوا کہ وہ آوازوں کے جنگل میں کہیں کھو گئی ہے، ہر آواز اُسے بھٹکانے کی کوشش کر رہی ہے، سر گوشیاں وہ جن کی کوئی منزل نہیں ہوتی، قریب تھا کہ وہ ہوا کے زور پر کہیں دور جا گرتی، ایک چھوٹا سا ہاتھ پلوشہ نے اپنے کاندھے پر محسوس کیا:
امی! مجھے نیند آ رہی ہے۔
پلوشہ نے گڈو کے چہرے کو غور سے دیکھا تو اُسے محسوس ہوا کہ گڈو کے نین نقش بالکل جہاں داد کی طرح ہیں، دلاسے کی نرم گرم چادر نے پلوشہ کو اپنے حصار میں لے لیا۔
جہاں دادتم یہیں کہیں ہو۔۔
ایک ہاتھ سے گڈو کا ننھا مناسا ہاتھ تھامے، دوسرے ہاتھ سے جب پلوشہ نے گھر کا تالا کھولا تو ہر طرف ویرانی کا راج تھا، آنگن میں سوکھے پتوں کا ڈھیر، باورچی خانہ گرد سے اَٹا پڑا تھا۔ گھر کے ہر کونے میں جہاں داد کی یادیں بکھری تھیں، مسرت بھری یادیں، اِسی گھر میں پلوشہ نے سچ مچ جینا سیکھا تھا، پلوشہ نے الماری کھول کر پلاٹ کی فائل احتیاط سے رکھی، تالا لگا کر چابی کو سنبھال کر رکھ دیا، یہ پلاٹ نہیں گڈو کا مستقبل تھا، یہ امانت تھی اُس خواب کی جو جہاں داد نے اپنے بیٹے کے لیے دیکھا تھا، پلوشہ نے اپنے چاروں طرف بکھرے ہوئے سازو سامان کو ایک حسرت بھری نظر سے دیکھا اور سوچنے لگی کہ زندگی کا سرا کہاں سے پکڑے، کہاں سے شروع کرے؟
دو دن گھر کی صفائی ستھرائی میں گزر گئے، کچھ بہتری کے آثار نظر آئے تو محلے پڑوس میں ملنے گئی، لوگوں کو راضی کیا کہ وہ اپنے بچوں کو قرآن پڑھنے اُس کے پاس بھیج دیا کریں، فی سبیل اللہ کام میں جزیہ کے طور پر کچھ دینا چاہیں تو دے دیں، ورنہ اللہ مدد گار ہے ہی۔
زندگی یوں ہی سہی، گڈو چار سال کا ہونے والا ہے، دیکھتے ہی دیکھتے جوان ہو جائے گا۔ پلوشہ گڈو کے معصوم اور حیران چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے سوچتی کہ میں شہید کی بیوہ ہوں، ابدی زندگی میں جہاں داد کے سامنے فخر سے جاؤں گی انشاء اللہ۔۔
اب بھی جب کبھی صحرا کی تیز ہواؤں میں ڈرون کی خوفناک آواز آتی ہے تو پلوشہ ڈر سی جاتی ہے کیونکہ تیز ہواؤں کا پتہ نہیں چلتا، آواز کو اپنے دوش پر اُڑائے لے جاتی ہیں۔ قریب کی آوازیں دور سنائی دیتی ہیں اور دور کی آواز قریب لگتی ہیں۔ صحرا کی سرگوشیوں کا کوئی اعتبار نہیں، یہ سر گوشیاں وہاں پہنچتی ہیں جہاں اُن کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔
پلوشہ نے آنکھیں آسمان کی طرف اُٹھائیں اور ہاتھ پھیلا کردعا مانگی:
یا اللہ! اُس کو آوازوں کے اِس جنگل میں بھٹکنے سے بچائے۔