تیری عطا کے راستے دشوار بھی نہیں
اور آسماں کی راہ میں دیوار بھی نہیں
پھر کیوں تری طلب میں ہے گھائل تمام روح
سنسان راستہ ہے یہ پر خار بھی نہیں
اب کون کر سکے گا یقیں قتل کیوں ہوئے؟
ہاتھوں میں میرے دوست کے تلوار بھی نہیں
دھندلا سا ایک عکس سرِ آئینہ تو ہے
اک شہر پیار کا ہے جو مسمار بھی نہیں
اے میرے زود رنج یہ قصہ کرو تمام
انکار گر نہیں ہے تو اقرار بھی نہیں
دستِ طلب میں نام ترا، بھول ہی تو ہے
اس رشتہء خلوص میں اظہار بھی نہیں
فنکار اب یہ سوچ رہا ہے کہ کیا کرے؟
صورت تراش لی ہے جو شہکار بھی نہیں