یہ دریا کی روانی کی غزل ہے
جوانی میں جوانی کی غزل ہے
برستا ہے کہیں زوروں سے ساون
گھٹا اور آگ پانی کی غزل ہے
کسی انجام کی پرواہ نہیں اب
بہت منہ زور پانی کی غزل ہے
نہ جانے تم سمجھ پاو نہ سمجھو
مرے دل کی کہانی کی غزل ہے
جہاں ہر رنگ تھا رنگ تغزل
بلا کی رت سہانی کی غزل ہے
چھلک جائیں نہ آنکھیں اشک تر سے
وفا کے دور فانی کی غزل ہے
کہانی سنتے سنتے سو گئی ہوں
اسی چندا کی نانی کی غزل ہے