زندگی کا غرور ٹوٹے گا
جب نشاط و سرور ٹوٹے گا
یوں نہ احساس کو گنوا دیجے
چاہتوں کا یہ نور ٹوٹے گا
یہ اندھیرا، یہ تیرگی کا سماں
اک نہ اک دن ضرور ٹوٹےگا
خامشی ٹوٹنے پہ آئی تو
پھر سے اک بار طور ٹوٹے گا
تھام رکھا ہے کانچ کا بندھن
مان گرچہ حضور ٹوٹے گا
بیچ ڈالے جو ہستیء جاں کو
فن پہ اس کا غرور ٹوٹے گا
ان کو ڈر ہے کہ مسکرانے سے
خامشی کا ظہور ٹوٹے گا