زندگی تجھ سے سرِ راہ ملاقات ہوئی
جو نہ ممکن تھی مقدر میں وہی بات ہوئی
ایک لمحے کو کھلی قوسِ قزح چہرے پر
اور پھر دیر تلک اشکوں کی برسات ہوئی
کھیلتے رہنا کبھی رنگ سے، لفظوں سے کبھی
دل مضطر تری ہر طرح مدارات ہوئی
کس نے طوفان اٹھایا ہے سرِ ساحل پر
سیپیاں چنتے ہوئے شام ہوئی رات ہوئی
اتنے برسوں سے گیا آیا نہ کوئی گھر میں
اک تری نظرِ کرم ہے کہ کرامات ہوئی
ایک خواھش جو نہ مٹتی ہے نہ دم توڑتی ہے
خالی کشکول کو ہر بار ہی شہ مات ہوئی