انسان اللہ کریم کی کیا کمال کی خلقت ہے۔ قدرت کی صناعی کا منہ بولتا ثبوت۔ جب اپنے وجود کا درست استعمال کرے تو ولی بنے اور یہی انسان جب اپنی ذلالت پہ آئے تو گندگی پہ گندگی کی مانند ایک ڈھیر کے علاوہ کچھ نہیں۔ شاید اسی لئے اللہ کریم نے ارشاد فرمایا کہ ہم نے انسان کو "احسن تقویم" پہ پیدا کیا۔ آپ وجود انسانی کی ساخت ملاحضہ کیجئے۔ یہ جسمِ انسانی اپنے اندر ایک کائنات ہے۔ آج تک اس جسمِ انسانی پہ ریسرچ ہورہی ہے۔
انسان اس دنیا میں اکیلا نہیں آتا بلکہ اپنے ساتھ پانچ وجود لے کر آتا ہے۔ جسم، سایہ، عکس، ہمزاد اور روح۔ یہ پانچوں وجود اپنے اندر ایک دنیا ہے۔ ان پانچوں کا ایک دوسرے سے رشتہ استوار ہے جس سبب بقا ملتی ہے۔ ان سب میں روح طاقتور ترین ہے۔ یہ روح بطور قیدی اس جسم میں مقید ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ انسانی رشتے جسم کے محتاج ہوتے ہیں۔ آپ یوں کہہ لیجئے کہ اس جسم کا ایک باپ، دادا، ماں ہوتا ہے۔ روح چونکہ نظر نہیں آتی سو اس سے رشتہ یا تعلق استوار ہونا مشکل ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک روح سے رشتہ کمزور ضرور ہوتا ہے ختم نہیں ہوتا۔ اگر یہ جسم اوجِ کمال حاصل کرے تو روح سے ملاقات بھی ممکن ہے۔
ہم اگر شعور کی وادی میں عقل کا گھوڑا دوڑائیں تو ایک سرحد ملتی ہے جہاں سے لاشعور میں موجود خزانوں کی حد کا آغاز ہوتا ہے، اسی یادوں کے خزانے میں ہمیں دھندلا سا ہیولا نظر آتا ہے۔ یہ پیکر دھندلا کیوں ہے؟ اس لئے کہ ہم ذیادہ وقت اس پیکر کے ساتھ نہیں گزار سکے۔ ابا جی، نوجوانی میں پردیس کے ہوگئے، ہماری اس دنیا میں آمد بھی پردیس ہی ہوئی۔ جب کبھی گاؤں گئے ایک یا دو دن کے لئے وہ بھی تب جب ہم اپنے شعور سے کوسوں دور تھے۔
لیکن ایک منظر اب بھی آنکھوں میں محفوظ ہے۔ ہمیں یہ تو یاد نہیں کہ ہم کتنی اجلت میں گھر سے چلے تھے۔ امی اور ابو کے تاثرات کیا تھے، کیا وہ رو رہے یا سسک رہے تھے مجھے یاد نہیں۔ بس کے چلنے میں ابھی وقت تھا، لیکن ایک ایک منٹ جیسے صدیوں پہ محیط ہو چلا تھا۔ خدا خدا کر کے سفر کا آغاز ہوا۔ ہمیں یہ بھی یاد نہیں کہ ہم نے کتنا طویل سفر کیا تھا۔ ہم تو سو گئے تھے، مگر شاید ابو جی سارے رستے جاگتے رہے۔
شام 8 یا 9 بجے ہم سیالکوٹ پہنچے۔ لاری اڈے میں گاؤں جانے والی کوئی سواری موجود نہیں تھی۔ لیکن گاؤں جلد از جلد پہنچنا ضروری تھا۔ ابو جی نے رکشے والے سے بات کی، اس نے حامی تو بھری لیکن منہ مانگے پیسوں کے بدلے۔ گاؤں پہنچنا شاید بہت ضروری تھا، سو کرائے پہ بحث نہیں کی۔ اب امید ہو چلی تھی کہ یہ سواری ہمیں جلد گاؤں پہنچا دے گی، لیکن شومئی قسمت یہ سواری رستے میں کئی مرتبہ خراب ہوئی اور رکی۔
آخر کار یہ سواری اپنی منزل پہ پہنچی۔ جہاں جا کر اترے وہاں سے سارا محلہ نظر آتا۔ اس محلے کا قبرستان محلے سے متصل تھا، محلہ سنسان تھا، لیکن قبرستان میں خلافِ معمول خلقت جمع تھی۔ ابو جی، مجھے امی جی کے پاس چھوڑ کر ان بندوں کی طرف تیزی سے لپکے۔ جب تک ہم ابو جی کے پاس پہنچے، بندے ایک مقام پہ مٹی اکٹھی کر رہے تھے۔ زندگی میں پہلی بار اپنے ابو جی کو یوں بچوں کی طرح بلک بلک کے روتے دیکھا۔
لیکن ہم پریشان تھے کہ ابو کیوں رو رہے ہیں؟ اور ایسے بلک بلک کر۔۔ اس وقت تو پتہ نہیں چلا لیکن آج اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کیوں رو رہے تھے۔۔۔ دکھ اس بات کا تھا کہ وہ اپنے ابا جی کا آخری دیدار بھی نہیں کرسکے۔ ہر کوئی ابو جی کو دلاسا دیتا کہ آپ کے ابا جی وقتِ نزع بھی آپ کو یاد کرتے رہے۔ سب نے افسوس کیا کا کاش آپ 10 منٹ پہلے آجاتے، اپنے والد کا آخری دیدار کرلیتے۔
اپنے والد کو کھونا شاید اس دنیا کا عظیم ترین نقصانوں میں ایک نقصان ہے۔ ابو جی کو یہ اطمنان کہ انکی ماں اور باپ ان پہ راضی گئے۔ پردیس میں رہنے کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ ہم اپنے دادا ابو کے ساتھ وقت نہیں گزار سکے۔ دادوں کو اپنے پوتوں سے بلا کا لگاؤ ہوتا ہے۔ ہم انکی نسل میں پہلے پوتے تھے، یہ انکا پیار تھا کہ ہمارا نام بھی انکا تجویز کردہ تھا۔ ان کا تذکرہ ابو جی اکثر کرتے ہیں۔ یہ باتیں سن کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کتنے بڑے لوگ تھے۔ انکے مرید انکی کرامات سناتے ہیں تو افسوس ہوتا یہ کہ ہم ان سے فیض کیوں حاصل نہیں کرسکے۔
دادا ابو بڑے وجیح انسان اور اپنے وقت کے مانے ہوئے پٹواری تھے۔ بھائیوں میں سب سے چھوٹے لیکن دل کے بہت بڑے۔ خاندان پرور ہونا انکا ایسا وصف تھا جس کا بدل اہل خاندان نے کچھ اچھے انداز سے نہیں کیا۔ ابا جی بتاتے ہیں کہ جب دنیا پیسے پیسے کو ترستی تھی، تب ہمارے گھر نوٹوں کی گڈیاں ہوتی۔ لیکن بچا کے کچھ نہیں رکھا، سب خاندان میں تقسیم کردیا۔ انکے دسترخان پہ کسی کو کوئی روک ٹوک نہ تھی۔
اب بھی جب کبھی ابو جی، دادا ابو کا ذکر کرتے ہیں تو انکی آنکھیں نم ناک ہو جاتی ہیں۔ ہماری آج تک کوشش رہی کہ کسی وجہ سے بھی ابو جی کی آنکھیں نم ناک نہ ہوں، مگر اس مقام پر ہم خود کو بے بس محسوس کر سکتے ہیں۔
مولا کریم ہمارے دادا ابو کو اور دادی جی کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائیں۔