آپ کا تعلق چاہے ن لیگ سے ہو، پی ٹی آئی یا کسی اور سیاسی و مذہبی جماعت سے جب بھی بات کریں دلیل سے کریں۔ بے جا ضد، ہٹ دھرمی اور انا سے آپ کسی کو اپنی بات نہ تو منوا سکتے ہیں نہ مسلط کر سکتے ہیں۔ اگر گفتگو میں گالی آجائے تو سمجھیں کہ گفتگو کرنے والا اپنی ہار مان چکا ہے اور مزید گفتگو نہیں کرنا چاہتا بلکہ اپنی بات منوانے کے لئے ڈنڈا سوٹا استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اگر آپ میں اتنا حوصلہ نہیں ہے کہ آپ اختلافی بات سن سکیں تو براہ کرم آپ گفتگو سے پرہیز کریں۔
گفتگو کرنے کے کچھ آداب ہوا کرتے ہیں جو اب معدوم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ جب نہ صرف اختلاف ہونے کے باوجود دوستیاں موجود تھیں بلکہ رشتہ داریاں بھی قائم رہتی۔ مگر کیا مجال تھی کہ اختلاف انکی دوستیوں یا رشتہ داریوں کو متاثر کرے۔ انکے بقول اختلاف اپنی جگہ اور دوستیاں اپنی جگہ۔ ایسا کیوں تھا؟ قارعین محترم، ایسا شاید اس لئے تھا کہ تب کے لوگ ادب، استاد اور کتاب سے منسلک تھے جبکہ آج کے لوگ ان سے الگ ہو چکے ہیں۔ آپ اس زمانے کا ادب اٹھا کر دیکھ لیں اور اب کے زمانے کا ادب بھی آپ کو واضح فرق نظر آئے گا۔ تب کے اساتذہ غیر سیاسی اور محنتی ہوتے تھے۔ ہاں البتہ انھیں اپنے ملک و ملت کی فکر ضرور ہوتی تھی۔ تب کی کتب میں ادب ملتا تھا، ملک سے وفاداری کی ترغیب ملتی تھی جبکہ کی کتب میں سازشی تھیوریاں ملتی ہیں، نام نہاد غدار بنا کر دکھائے جاتے ہیں۔ تب ادب خدا کی بستی، طلسم ہوشرہا، بابا صاحبا اور احمد فراز کا نام تھا۔ جبکہ آج ادب کی سمت ہی کچھ اور ہے۔ تب ہمارا لیڈر قائد اعظم جیسے لوگ تھے جنکا نام اج بھی ہم عقیدت و احترام سے لیتے ہیں اور انہیں ہم اچھے لفظوں میں یاد کرتے ہیں، جبکہ آج کے لیڈر شاید اس قابل ہیں کہ ہم انکے منہ پر نازیبا الفاظ سے نوازتے ہیں۔
کسی بھی قوم کا لیڈر اپنی قوم کا عکاس ہوتا ہے۔ اگر آپ یہ دیکھنا چاہیں کہ قوم کی اخلاقیات، سماجیات اور دیگر عوامل کا کیا مقام ہے تو آپ ان کے لیڈران کو دیکھیں۔ اگر تو وہ دلیل سے بات کریں، ان کی گفتگو سے تہذیب جھلکتی ہے، آپ جناب کہہ کر گفتگو کرنے والے ہوں تو قوم بھی ویسی ہی ہوگی۔ قوم بھی تہذیب یافتہ اور دلائل سے گفتگو کرنے والی ہوگی ورنہ معاملہ اس کے برعکس ہوگا۔ آپ آج کے ملکی لیڈران کرام کو دیکھ لیں اور قومی تہذیب کے معیار کا اندازہ بھی لگا لیں۔ آپ آج سوشل میڈیا پر انداز گفتگو دیکھ لیں، آپ کو واضح فرق محسوس ہوگا کہ دلیل کی کمی، گالی کی بہتات اور اخلاق باختہ حرکیات موجود ہیں۔
اب ایسے موڑ پہ کیا کیا جائے؟ میرا خیال ہے کہ ہمیں اپنے نوجوانوں کو مطالعہ اور اچھے لوگوں کی صحبت اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں سپورٹس کی طرف راغب کریں۔ ہمارا سپورٹس میں مقام نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہوگا بھی کہاں سے؟ نوجوان تو کہیں اور مگن ہیں۔ ہمیں اپنے رویوں میں صبر اور حوصلہ شامل کتنا ہوگا۔ بڑوں کا احترام اور چھوٹوں سے پیار یہی وہ درس ہے جو ہمیں پیغمبر اسلام ص کی احادیث میں ملتا ہے۔ مگر مقام افسوس اسی رسول کی امت میں ان اوصاف حمیدہ کی کمی ہے۔ خدا کرے کہ ہمارہ گفتگو پھر سے دلیل اور خوشگفتاری سے مرصع ہو جائے اور ہم صرف گفتار کے غازی نہ بنیں بلکہ ہمارے افعال بھی ایسے ہوں جن پر فخر کیا جاسکے۔