ہمارا معاشرہ نہ جانے کس طرف گامزن ہے۔ ہر ایک ہاتھوں میں نفرت، درندگی، نفسانی خواہشات کی تلوار لیے گھوم رہا ہے اور اس انتظار میں ہے کہ کب اسے مخالف نظر آئے اور کب اسکا سر تن سے جدا ہو۔ یہ معاملہ ہر جگہ نمایاں ہے۔ وہ جنھیں اپنے اپنے شعبے کی سربراہی بخشی گئی وہ تمام ان اوصاف کے مالک بن گئے۔ آپ مذہب، سماج، معاشرہ، ملک، شہر الغرض زندگی کے ہر شعبے میں نظر دوڑا لیجئے آپکا سر آجکا انسان دیکھ کر جھک جائے گا۔
وہ مذہب جس نے پیار، محبّت، آگہی اور امن کا سبق دیا آج اقوام عالم میں محض مذاق بن کے رہ گیا ہے۔ آج جہاں بھی آپ اسلام کا نام لیں گے آپکے اسلام کا مذاق اڑایا جاے گا۔ آج اسلام یورپ میں دہشت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ کیا اسلام ایسا ہی ہے؟ زرا سوچئے۔ ہر صاحب ضمیر کا جواب ہوگا نہیں؛ ہرگز نہیں۔ تو پھر وہ امن، آشتی اور پیار بھرا اسلام نظر کیوں نہیں آتا؟
وہ اسلام جو "لا اکرہ فی الدین" کی صدایں بلند کر رہا ہو؛ بظاہر اس کے ماننے والے اللہ اکبر کی صدا سے ناحق کسی کا سر قلم کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ تضاد سمجھ نہیں آتا۔ یہ سب کر کے ہم خدمت کس کی کر رہے ہیں؟ اسلام کی تو ہرگز یہ نہیں۔ ایسی مثال آپکو کم ہی کہیں ملے گی۔ اسلام تو ہمیشہ مظلوم کا ساتھی نظر آتا ہے۔ میں یہ بات بڑے وثوق سے کرنے کی جسارت کروں گا کو اللہ کے آخری رسول آپ پر کروڑوں درود و سلام کا کردار ایسا بےمثل و بےمثال ہے کہ جو ہمارے لیئے سرمایہ حیات ہونا چاہیئے مگر سچ پوچھئے تو ہم نے بطور مجموعی اسے درخو اعتناء ہی نہیں سمجھا۔ اقبال نے بھی کیا خوب کہا تھا۔ ۔
باطل کے لیئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ
پروردگار عالم نے تو قرآن جیسے عظیم کتاب میں فرمایا ہے لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوہ حسنہ۔ مگر یہ تو اُنکا اسوہ نہیں ہے۔ اُنکا اسوہ تو یہ ہے کہ اگر کسی روز کوڑا نہیں پھینکا جاتا تو وہ پریشان ہو جاتے ہیں۔ اسی پریشانی میں اسکی عیادت کرتے ہیں۔ وہ عورت اس اسوہ سے اتنی متاثر ہوتی ہے کہ وہ آپ پر ایمان لے آتی ہے۔ اگر کوئی پتھر برساتے ہیں تو آپ انھیں دعائیں دیتے ہیں کی یا اللہ انہیں میری سمجھ عطا فرما۔ یہ ہے اسوہ۔ وگرنہ اگر وہ چاہتے تو حضرت جبرائیل ایک اشارے کے منتظر تھے۔
سچ پوچھئے ہم صرف گفتار کے غازی رہ گئے ہیں۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور ہم وہیں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہمارا عملی کردار دیکھ لیجئے نہ ہم نے انسانیت کی خدمت کےلئے کسی قسم کی کوئی ایجاد کی ہے اور نہ ہی کوئی ارادہ ہے۔ ہر نئی ایجاد انگریز کر رہے ہیں اور ہم انہی کی ایجادات کو استعمال کر کے انہی کو مغلذات سے نوازتے ہیں۔ اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ وہ یہ سب کر کے جہنمی اور ہم پکے جنتی۔ جنتی اس لئے کہ ہم نے نعرہ تکبیرکی صدا تلے جو انسان کا سر کاٹا ہے اس سے ساری انسانیت کی بھلائی جو ہوئی ہے۔
خدا کےلئے۔ جو اپنا اخلاق بہتر نہ کر سکا وہ دنیا میں انسان کہلانے کا حقدار بھی ہے؟ فیصلہ آپ پر چھوڑتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔