تنہائی اور اداسی کے بھی بہت سارے رنگ ہوا کرتے ہیں، بہت سارے چہرے ہواکر تے ہیں، بہت سارے روپ ہواکرتے ہیں۔ کبھی کبھی تنہائی بڑی رنگین ہو جا تی ہے، اس میں بہت سارے رنگ بھر جاتے ہیں ایسے رنگ جودل کو بہت بھلے لگتے ہیں ان کو بار بار دیکھنے کو جی چاہتا ہے، مگر کبھی کبھی تنہائی کے سارے رنگ ماند پڑ جاتے ہیں، سارے رنگ دھیمے ہو جاتے ہیں اور اس صورت حال میں ان رنگوں سے دور بھاگنے کو جی چاہتاہے، ان رنگوں سے زیادہ بغیر رنگوں والی زندگی اچھی لگنے لگتی ہے۔ اسی طرح تنہائی کے بہت سارے چہرے بھی ہوا کرتے ہیں، کچھ چہرے بہت خوبصورت ہوتے ہیں دل چاہتا ہے کہ ان چہروں کو اپنے وجود کاحصہ بنا لیا جائے مگر کبھی کبھی یہ چہرے بے حد خوٖفناک بھی ہو جاتے ہیں یوں محسوس ہوتاہے کہ ان میں کوئی بھٹکی ہوئی آتما آگئی ہے جو بار بار ہمیں ڈرا رہی ہے، ہمیں خبر دار کر رہی ہے کہ کچھ ہونے والا ہے آنکھیں کھول کر لو، کچھ ہونے والا ہے جاگ جاو، کچھ ہونے والا ہے بھاگ جاو۔ بھٹکی ہوئی آتما کی یہ صدائیں باز گشت کی طرح ہمارے اندر ہی اندر گونجتی رہتی ہیں، ہم ان صداوں سے بھاگنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن یہ سائے کی طرح ہمارے ساتھ ساتھ ہماری ہی رفتار سے بھاگتی رہتی ہیں بالاخر ہم تھک جاتے ہیں ہمارا سانس بھول جاتا ہے، ہمارا سینہ دھولک کی ماند دھک دھک کرتا ہے لیکن یہ کبھی نہیں تھکتی، ان کی کبھی سانس نہیں پھولتی، ان کے سینے میں کبھی دھولکی نہیں بجتی۔ اسی طرح کبھی کبھی تنہائی بہت گہرئی ہو کر ہمارے وجود کے اندر تک ایسے اتر جاتی ہے جیسے پانی اترتا ہے، اور پانی ہی کی طرح یہ اندر اترتے ہوئے اپنی موجودگی کا احساس بھی دلاتی رہتی ہے یا یہ ہمارے وجود میں ایسے اترتی ہیں جیسے خنجر پیوست ہوتا ہے اور اندر سے سب کچھ کاٹ کر باہر آتا ہے۔ اسی طرح کبھی کبھی تنہائی کی بھی آوازیں سنائی دیتی ہیں، درحقیقت یہ تنہائی کی آوازیں تو نہیں ہوتیں، یہ ہمارے ماضی سے جڑے ان لوگوں کی صدائیں ہوتی ہیں جن کی صداوں کو ہم نے بہت بری طرح سے کبھی نظر انداز کیا ہوتاہے۔ تنہائی اس لئے بھی شائد کبھی کبھی بہت تکلیف دیتی ہے کیونکہ اس میں انسان کے سامنے اسکا ماضی طشت از بام ہو کر آجاتا ہے۔ بھولی ہوئی یادیں، بھولے ہوئے لوگ، بھولے ہوئے وعدے پھر سے دستک دے کر گھرکے اندر چائے پینے آجاتے ہیں۔ ایسے مہمانوں کی مہمان نوازی بڑی مہنگی پڑتی ہے ان کی مہمان نوازی کے لئے جذبوں اور احساسات کی دنیا میں جا کر ان کی خاطر تواضع کے لئے کچھ لانا پڑتا ہے۔ ان کے لئے بنائی گئی چائے میں پانی کی جگہ اپنے اشک شامل کرنا پڑتے ہیں۔ یہ مہمان آتے تو بہت تھورے وقفے کے لئے ہیں لیکن ان کی موجودگی کا احساس بڑی دیر تک رہتا ہے، یہ جاتے وقت بہت سارے تحفے دے جاتے ہیں، بہت ساری یادوں کے تحفے، بہت سارے احساسات کے تحفے، بہت سارے ارمانوں کے تحفے اور بہت سارے پچھتاوے کے تحفے۔ میزبان ہونے کے ناطے ہم ان تحفوں کو لینے سے انکار بھی تو نہیں کر سکتے اور مروت میں اپنی جھولی کو بہت سارے احساسات سے بھر لیتے ہیں۔ احساسات کا نہ تو وزن ہوتا ہے اور نہ ہی ان کا حجم زیادہ ہوتا ہے اس لئے چھوٹی سی جھولی میں بھی ڈھیر صدیوں کے احساسات سما سکتے ہیں، احساسات کی اسی خصوصت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ مہمان بھی ان گنت احساسات سے، ان گنت یادوں سے ہماری جھولی کو بھر جاتے ہیں۔ ان مہمانوں کے جانے کے بعد ہم باری باری ایک ایک یادکو اپنی جھولی سے نکال کر زندگی کے ناتواں کندھوں کے سپرد کرتے رہتے ہیں۔ جھولی تو خالی ہو ہی جاتی ہے لیکن یادوں کی گٹھری دن بدن بھاری ہوتی جاتی ہے جس کے نتیجے میں زندگی کے کندھے جھکنا شروع ہو جاتے ہیں۔ بات کہاں سے نکل کر کہاں تک پہنچ گئی، میں تنہائی کےمختلف ذائقوں کی بات کر رہا تھا۔ میں نے تنہائی کے بہت سارے رنگ دیکھے ہیں، تنہائی کے بہت سارے ذائقوں سے آشنائی ہوئی ہے۔ میں ہر بار یہی سوچا کرتا تھا کہ اس بار میں نے اداسی اور تنہائی کا جو روپ دیکھ لیا ہے، جو ذائقہ چکھ لیاہے شائد اس کے بعد کی کوئی بھی اداسی یا تنہائی مجھے دکھی یا خوفزدہ نہیں کر سکے گی۔ میں سوچاکرتا تھا کہ اس بار میں نے اداسی کے ایسےدریا کو عبور کیا ہے جو تنہائی کے وسیع و عریض سمندر کی جھولی میں گر کر خود کو فنا کر دیتاہے اس لئے اس کے بعد کے کسی سیلاب یا طوفان کا مجھ پر کوئی اثر نہیں پڑ سکے گا، لیکن میں غلط سوچتا تھا، غلط سمجھتا تھا، ہر نئی اداسی اور ہر نئی تنہائی اپنے ساتھ مختلف ورائٹی کے رنگ، چہرے اور روپ لے کر آتی ہے۔ ایسے رنگ لے کر آتی ہے جن کا پہلے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوتا، ایسے چہرے لے کر آتی ہے جن کا کبھی خیال بھی نہیں آیا ہوتا، ایسے روپ لے کر آتی ہے جو کبھی خیالوں کی دنیا کے پاس سے بھی نہیں گزرے ہوتے۔ لیکن یہی زندگی ہے، اسکے اپنے کچھ اصول ہیں، اسکے اپنے کچھ زاویے ہیں جنہیں ہمیں بارحال گلے لگانا پڑتا ہے، کبھی خوش دلی کے ساتھ اورکبھی اشک آلود آنکھوں کے ساتھ۔