1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی محمود/
  4. دکھوں کاکوٹہ

دکھوں کاکوٹہ

وہ زندگی کی پہلے رات تھی جو اس نے اپنے والدین کے بغیر گزاری تھی۔ زندگی میں پہلی بار وہ کمرے میں اکیلا تھا۔ اسکی ماں کو معلوم تھا کہ اسکو اکیلے ڈر لگتا ہے اس لئے اس کی ماں نے کبھی اسکو اکیلا نہیں ہونے دیا تھا، لیکن آج وہ اکیلا تھا۔ اس نے اپنی زندگی کا ہر دکھ، اپنی زندگی کی ہر خوشی کو صرف اپنےماں باپ کے ساتھ ہی بانٹا تھا لیکن یہ ایسا دکھ تھا جس کو وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ نہیں بانٹ سکتا تھا۔ اسے اکیلے جینے کی عادت نہیں تھی لیکن وہ آج بلا کا تنہا اور اکیلا تھا۔ آج اسکو یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے گھنی چھاوں سے نکل کر چبھتی ہوئی جلا دینے والی دھوپ میں آ گیا ہو۔ اس کے والدین کے گزر جانے کے بعد اس کے چچا چچی اس کو اپنے گھر لے آئے۔ اپنے والدین کی کمی تو کبھی بھی پوری نہیں ہوسکتی لیکن اگراسکے چچا چچی اسکو تھورا پیار دیتے تو شائد وہ والدین کی کمی کو تھوراکم محسوس کر پاتا۔ لیکن وہ چھوٹی چھوٹی خواہشات کے لئے ترستا رہا، پیار اور محبت کے لمس کے لئے تڑپتا رہا۔ اس کےسامنےاس کےکزنز کو ماں کی ممتا ملتی تھی، اس کے سامنے انکو باپ کی شفقت ملتی تھی اوروہ یہ سب دیکھ کر چہرے پرمسکراہٹ سجا ئے اندر ہی اندربرستا رہتا تھا۔ اس کے اندر کی برسات مسلسل جاری رہتی تھی۔ امی ابو کے ہوتے ہوئے کسی میں جرت نہیں تھی کہ کوئی اس کو کچھ بھی کہتا، لیکن امی ابو کےچلے جانے کے بعد لوگوں کی باتوں کے نشتراس کے معصوم وجود کو چھلنی کر دیتے تھے۔ وہ ضرورت سے زیادہ حساس ہو گیا تھا۔ لوگوں کی باتیں، لوگوں کے رویے اس کو بہت زیادہ تکلیف دیا کرتے تھے۔ اس کے اندر بہت توڑ پھوڑ ہو چکی تھی۔ وہ گھنٹوں بیٹھ کر لوگوں کے رویوں کے بارے میں سوچتا رہتا، لوگوں کی کڑوی باتیں اس کی سماعتوں میں گونجتی رہتی تھیں۔ وہ پل پل مر رہا تھا۔ یہ سب کچھ اس کو دیمک کی طرح اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا۔ وہ بہت زیادہ پریشان ہو جاتا تھا کیونکہ اس کو معلوم نہیں تھا کہ تغیرات زندگی کی بہت بڑی حقیقت ہوا کرتی ہیں، زندگی کا ہر وقت بارحال گزرہی جاتا ہے۔ جیسے ہر انسان کے لئے رزق اور خوشیوں کا کوٹہ مقر ر ہوتا ہے اسی طرح دکھوں کا بھی کوٹہ پہلے سے طے ہوتا ہے۔ اگر انسان زندگی کے ابتدائی مرحلے میں ہی اپنے دکھوں کا کوٹہ مکمل کر لے، اپنے حصے کے سارے دکھ اور ساری تکلیفیں برداشت کر لے تو باقی کی زندگی بڑے اطمینان میں گزرا کرتی ہے۔ کیونکہ باقی کی زندگی میں اس نے خوشیوں کا کوٹہ مکمل کرنا ہوتا ہے، پھر خوشیوں کی ناختم ہونے والی برسات شروع ہوجاتی ہے جو کہ انسان کو زندگی کے حقیقی رنگوں سے آشنا کرواتی ہے۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اسکا دکھوں اور تکلیفوں کا کوٹہ بھی بہت جلدی ختم ہونے والا ہے اور اس کے بعد اس کی جھولی خوشیوں سے بھرنے والی ہے۔ وہ یہ سب کچھ نہیں جانتا تھا اسی لئے وہ اکثر بہت مایوس ہو جاتا تھا، بہت پریشان ہو جاتاتھا۔ وہ اگر جانتا کہ دکھوں کا کوٹہ ایک ساتھ ہی مکمل ہو جائے تویہ بہت بڑی نعمت ہوا کرتی ہے، وگرنہ خوشیوں اور غموں کی غلام گردش انسان کو کئی منزلوں کامسافر بنا دیتی ہے۔ انسان خوشیوں کے ذائقے کو چکھ چکا ہوتا ہے، خوشیوں کے بعد کے دکھ بہت کڑوے لگنے لگتے ہیں، اس صورت حال میں دکھ زیادہ شدت کے ساتھ اثرانداز ہوتے ہیں، لیکن اگر مسلسل دکھوں سے ہی واسطہ ر ہے تو دکھوں کے ذائقوں سے بھی آشنائی ہونا شروع ہو جاتی ہے اورپھر دکھ زیادہ شدت سے اثر انداز بھی نہیں ہوا کرتے۔ وہ اگر زندگی کے ان حقائق سے واقف ہوتا تو خوشیوں کے انتظار میں دکھوں کے کوٹے کو صبر کے ساتھ مکمل کرتا، وہ اگر ان حقائق سے آشنا ہوتا تو تمام تکلیفوں کواطمینان سےاپنے اندر جزب کر لیتا۔ لیکن انسان دکھوں اور تکلیفوں سے اس لئے گھبرا جاتا ہے، اس لئے ان سے پریشان ہو جاتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ دکھ اور یہ تکلیفیں تا دم حیات اس کے ساتھ رہیں گی، کبھی اس کا دامن ان دکھو ں اور تکلیفوں سے نہیں چھوٹ سکےگا۔ اس کےبعد وہی ہوا، وقت نے کروٹ بدلی اور اس کے دکھوں کا کوٹہ بھی ختم ہو گیا۔ زندگی نے اسکی جھولی میں اچانک اتنی خوشیاں ڈال دیں کہ ماضی کے دکھ اس کے حافظے سے دھندلا گئے۔ وہ سارے طعنے جو لوگ اس کودیا کرتے تھے، وہ سارے رویے جو وہ برداشت کرتا تھا سب خوشیوں کی دھول میں گم ہو گئے۔ آج اتنے سالوں بعد پہاڑوں میں گھرے فام ہاوس میں بیٹھ کر کافی کا مگ تھامے وہ گزرے وقت کو یاد کر رہا تھا۔ لیکن گزرے وقت کی وہ سب یادیں، وہ سب باتیں اسکو تکلیف نہیں دے رہی تھیں، اسکو دکھی نہیں کر رہی تھیں۔ کیونکہ دکھوں کی برسات ختم ہو چکی تھی اور خوشیوں کی رم جھم میں وہ جھوم رہا تھا۔