یہ ایک معمول کی صبح تھی، سورج ہر روز کی طرح سمندر کے کناروں سے آہستہ آہستہ جلوہ افروز ہو رہا تھا۔ وہ آج بھی ساحل سمندر پر بیٹھا ایک خوبصورت دن کے خوبصورت سورج کو طلوع ہوتا دیکھ رہا تھا۔ آج اس کے ساتھ لکڑی کے بنچ پر ایک لڑکا بھی بیٹھاہوا تھا۔ تیز ہوا سمندر کی لہروں سے ٹکڑا کر ساحل پر طاری سکوت کو توڑ رہی تھی۔ ہر روز کی طرح سمندر کی لہریں اپنے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں مچھلیوں کو لا کر ساحل کی مٹی کے سپرد کر کے واپس لوٹ جا تیں اور مچھلیاں پانی سے بچھڑنے کے غم میں تڑپ تڑپ کر جان دے دیتیں وہ یہ سب کچھ دیکھ کر ایک لمبی سی آہ بھرتا اور اس کو قدرت کا قانون سمجھ کر قبول کر لیتا۔ لیکن آج سمندر کی لہریں جب مچھلیوں کو ساحل کی ریت پر تڑپتا چھوڑ کر واپس جا رہی تھیں تو وہ لڑکا اٹھا اور ایک ایک کر کے ان مچھلیوں کو واپس سمندر میں پھینکے لگا۔ وہ یہ سب دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولنے لگا یہ دیکھ رہے ہو اس ساحل پر کتنی تعداد میں مچھلیاں تڑپ رہی ہیں تمہاری اس کوشش سے کیا فرق پڑے گا۔ لڑکے نے اپنا کام جاری رکھتے ہوئے ایک مچھلی کو اٹھا یا اور سمندر میں پھینکتے ہوئے بولا۔ سب کو تو نہیں فرق پڑے گا لیکن اس کی زندگی کو ضرور فرق پڑے گا۔
انسان کے اندر ہر وقت رسا کشی کا کھیل چلتا رہتاہے ایک طرف اچھائی ہوتی ہے اور دوسری طرف اس کے مدمقابل اس کی حریف برائی ہوتی ہے۔ ہم جب بھی اپنے ادرگرد کوئی واقعہ رونما ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں تو اندر کی دونوں ٹیمیں میدان میں آجاتی ہیں۔ ہار اور جیت چونکہ ہر کھیل کا حصہ ہوا کرتے ہیں اس لئے اس کھیل میں بھی کھبی اچھائی جیت جائی ہے اور کبھی برائی غالب آجاتی ہے۔ برائی جب اچھائی پر غالب آتی ہے تو اس کے پیچھے دلیل کی طاقت ہوتی ہے انسان اپنے ضمیر کو کئی حیلے بھانوں اور کئی قسم کی دلیلوں سے خاموش کروا دیتا ہے۔ انہی دلیلوں میں سے ایک دلیل یہ بھی ہے کہ انسان محض اس وجہ سے خاموش ہو جاتا ہے کہ میرے بولنے سے کیا فرق پڑے گا۔ اس دلیل کی وجہ سے وہ برائی کو روکنے کی استطاعت رکھتے ہوئے بھی اس کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھا تا بلکہ خاموش رہ کر اسی برائی کا حصہ بن جاتا ہے۔ اکثر جب پانی کی کوئی ٹوٹی خراب ہو جاتی ہے تو اس سے قطرہ قطرہ پانی نکلتا رہتا ہے اور پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے اس کے نیچے کوئی برتن رکھ دیا جاتا ہے۔ پانی کی مقدار کو دیکھتے ہوئے کبھی بھی احساس نہں ہوتا کہ اتنے کم پانی سے بھی برتن بھرا جاسکتا ہے لیکن صبح کو اٹھ کر دیکھتا جائے تو یوں محسوس ہو تا ہے کہ پانی بہت دیر سے برتن کی آخری حدوں کو پھلانگ کر باہر کی طرف بہتا رہا ہے۔ اسی طرح ہمیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ برائی کے خلاف آواز اٹھانے یا اچھا ئی کے کام کے آغاز کے لئے ہمارا پہلا قدم جس کی ہمیں وقتی طور پر کوئی اہمیت محسوس نہیں ہوتی کس قدر اہمیت کا حامل ہو سکتا ہے۔ ہمیں اس بات کو صرف نظر کر کے اپنے حصے کا چراغ جلانا ہے۔ اس بات کو سوچنا ہمارا کام نہیں کہ اس چراغ کی روشنی کتنی دور تک جائے گی یا اس سے کتنے لو گوں کو فائدہ ہو گا یا سورج کی تیز روشنی میں ہمارے چراغ کی کیا اہمیت ہو گی۔