آج کا میرا موضوع بہت سارے لوگوں، خصوصاًبہت سارے شوہروں کے لیے انتہائی دلچسپی کا باعث ہو گا۔ میرا مقصد بھی یہی ہے کہ شوہر حضرات شکوے شکایات کی بجائے ان چھ سنہری اصولوں پر عمل کر کے اپنی ازدواجی زندگی کو بہتر بنائیں۔ میرے یہ چھ اصول، معافی چاہتا ہوں میرے یہ چھ "سنہری" اصول ہر خاص و عام کے لئے ہیں اور میں اسی لئے ان کو کسی فیس یا ہدیےکے بغیر ہی صدقہ جاریہ سمجھتے ہوئے عوام کے لئے عام کر رہا ہوں تاکہ خلق خدا زیادہ سے زیادہ فیض یاب ہو کر میرے حق میں دعاگو رہیں، کیونکہ پنجاب پولیس کی طرح خدمت خلق میرا بھی اولین فریضہ ہے۔ میرے ان چھ سنہر ی اصولوں پر عمل کر کے اور ان کے نتائج اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد یقیناً آپ لوگ بابا علی محمود کی دور اندیشی، ذہانت اور فقیری کے قائل ہو ئے بغیر نہیں رہ سکیں گے اور میرے مستقل مرید بننے کے لئے بے تاب ہوجائیں گے۔ اس سے پہلے کہ آپ لوگ میرےآستانے کا پتہ پوچھیں، میں خود ہی یہ اعلان کر دینا چاہتا ہوں کہ میں بہت جلد اپنے آستانے کی بنیاد رکھنے والا ہوں، جو کہ وژن 2025 کے تحت اگلے سات سالوں میں مکمل ہو ہی جائےگا، جس کے بعد آپ لوگ باقائدہ میری شاگردی اختیار کر کے بغیر کسی داخلہ فیس کے مزید فیض حاصل کر سکیں گے۔ موضوع کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے میں یہ چھ اصول دو مختلف حصوں میں پیش کروں گا، تاکہ پڑھنے والوں کو بد ہضمی کی شکایت نہ ہو، مگر اس کے باوجود زیادتی خوراک کی وجہ سے اگر معدے میں جلن یا السر کی تکلیف محسوس کریں تو بابا علی محمود کی بنائی ہوئی خاص "پھکی" استعمال کرنا مت بھولئے گا، یہ "پھکی " آپکے سارے مسائل دور کر دے گی۔ دل جگر تھام لیں، چونکہ آپ لوگوں کا انتظار ختم ہونے والا ہے۔ پیش خدمت ہیں اچھی اور خوشگوار ازدواجی زندگی کے چھ سنہری اصول۔
انسان کو اللہ تعالی نے بے شمار خصوصیات سے نوازرکھا ہے، جس میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ جو کچھ بننا چاہتا ہے، تھوری سی جدوجہد کے بعد وہ بن ہی جاتاہے۔ اس لئے آج سے ہی گونگا بننے کی پریکٹس شروع کردیں، ایک بات کا خاص دھیان رکھنا ہے کہ میں نے گونگا کہاہے بہرہ نہیں۔ اگر آپ گونگے کے ساتھ ساتھ بہرہ بھی بن گئے تو ہر کام سے بے بہرہ ہو جائیں گے۔ میں اپنی بات کی طرف واپس آتا ہوں، گونگا بننے کی اچھی طرح سے پریکٹس کر لیں اور اس پریکٹس کو صرف گھر میں اپنی بیوی کے سامنے تک محدود رکھیں۔ بیوی جو مرضی کہتی رہے آپ نے یہ سمجھنا ہے کہ آپ بول ہی نہیں سکتے اس لئے صرف منہ ہلا کر یا اشاروں سے جواب دینے کی کوشش کرنی ہے۔ ایک اور بات کا خاص خیال رکھنا ہے وہ یہ کہ بیگم کو کبھی بھی یہ محسوس نہیں ہونا چاہیے کہ آپ کسی طرح سےبات سنتے ہوئے بیزاری کا تاثر دے رہے ہیں۔ ہمیشہ یہ تاثر دیں کہ آپ بہت زیادہ دلچسپی سے بیگم کی باتیں سن رہے ہیں۔ اس عمل کو ایک خاص موقع پر استعمال میں لانا کبھی مت بھولئے گا، جب بھی آپ غصہ میں ہوں یا آپ کو محسوس ہو کہ آپکی بیگم شدید غصہ میں ہے تو اس صورت حال میں آپ کے منہ سے ایک بھی لفظ نہیں نکلنا چاہیے وگرنہ نتائج کی ساری ذمہ داری آپ پر خود ہوگی، بابا علی محمود کسی طرح سے اس کے ذمہ دار نہیں ہوں گے۔
دوسرا سنہری اصول یہ ہے کہ آپ دن میں کم از کم ایک سو جملے بیگم کی تعریف میں ضرور بولیں۔ آپ لوگ سوچ رہیں ہوں گے کہ بابا علی محمود سٹیا گئے ہیں، پہلے اصول میں واضح لکھا ہے کہ گونگا بنا رہنا ہے اور اب تعریف کرنے کا بول رہے ہیں۔ تو جناب کچھ خاص مواقع ایسے بھی ہیں جہاں پہلا اصول کچھ دیر کے لئے توڑا جا سکتا ہے۔ دوسرا اصول بھی ایسے موقعوں میں سے ہی ایک موقع ہے جہاں پہلا اصول کچھ دیر کے لئے معطل کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اگر آپ بیگم کی تعریف نہیں کریں گے تو بیگم کے دل میں شکوک و شبہات جنم لینا شروع ہو جائیں گے۔ کس طرح کےشکوک وشبہات جنم لیں گے؟ وہ تمام شوہر حضرات بخوبی سمجھتے ہیں۔ اس لئے صبح اٹھتے ہی بیگم کی تعریف کریں، پھر اگر بیگم غلطی سے نہا کر صاف ستھرے کپڑے بھی پہن لے تب تو بیگم کی تعریف آپ کا اولین فریضہ بن جاتی ہے۔ اسی طرح بیگم کے کھانے کی، بیگم کے کئے گئے کاموں کی وقتاً فوقتاً تعریف اپنی عادت کا حصہ بنا لیں۔ جس طرح ہر نسخہ کے بارحال کچھ سائیڈ افیکٹ بھی ہوتے ہیں اسی طرح میرے ان اصولوں کے بھی بہت سنگین سائیڈ افیکٹ ہو سکتے ہیں اس لئے بابا علی محمود کی دی گئی ہدایات کو بغور پڑھیں اور من و عن ان پر عمل کریں، اگر کسی طرح کی ملاوٹ کرنے کی کوشش کی تو بابا علی محمود کا عمل الٹا ہو جائے گا جس کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے۔ اس لئے اس اصول میں بھی ایک بات کا خاص خیال رکھنا ہے کہ کبھی بھی بیگم کو یہ تاثر نہیں جانا چائیے کہ آپ اس کی جھوٹی تعریف کر رہے ہیں۔ اس کا بہترین حل یہ ہے کہ کبھی بھی بیگم کی تعریف جھوٹ سمجھ کر نہ کریں۔ اگر اپکو کسی وقت بیگم اچھی نہیں لگ رہی تو پھر بھی اسکو اچھا سمجھ کر اس کی تعریف کریں۔ اسی طرح اگر بیگم نے کسی کام میں کوئی غلطی کر دی ہے تو پھر بھی اس کام کی یہ سمجھ کر تعریف کریں کہ کم از کم آپ کی بیگم نے کام تو کیاہے اس طرح آپ جھوٹ کی لعنت سے بھی بچ جائیں گے اور بیگم کی شان میں قصیدہ بھی کہ لیں گے۔
آج کے لئے یہ دو سنہری اصول ہی کافی ہیں، میں اپنی اگلی تحریر میں باقی کے چار سنہری اصول پیش کروں گا۔ تب تک آپ میرے ان دو سنہری اصولوں کو اپنے پلے سے باندھ کر خوشگوار ازدواجی زندگی کا آغاز کریں۔