مجھے یقین ہے کہ اس موضوع کے پچھلے حصے میں دیے گئے دو اصولوں کو آپ نے بالکل بھی اپنی زندگی میں شامل نہیں کیا ہوگا۔ لیکن اس کے باوجود میں خوشگوارازدواجی زندگی کے باقی چار سنہری اصول بیان کررہاہوں۔ کیونکہ آپ عمل کریں یا نہ کریں مجھے اس سے کوئی غرض نہیں، میرا کام چراغ جلانا ہے اگر کوئی چراغ سے اپنے دیے روشن کرنا چاہتا ہے تو کر سکتا ہے اور اگر کوئی اندھیروں میں ہی رہنا پسند کرتا ہے تو اس صورت حال میں کوئی کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ بابا علی محمود کا کام لوگوں تک آسانیاں پہنچانا ہے، لوگوں تک روشنیاں پہنچانا ہے، وہ بابا علی محمود تادم حیات کرتا رہے گا۔ پیش خدمت ہیں اچھی ازدواجی زندگی کے باقی چار سنہری اصول۔ ۔ ۔
تیسرا اصول بھی اہمیت کے لحاظ سے پہلے دو اصولوں سے کم نہیں ہے۔ اس لئے اس اصول کوبھی پلو کے ساتھ پکا باندھ لیں۔ اپنی زندگی میں کسی بھی کام کا ارادہ کریں، یا کوئی بھی کام کرنے کا خیال ذہن میں آئے تواس ارادے یا اس خیال کا تذکرہ بیگم سےکر کے، بیگم سے اس مخصوص کام کے بارے میں مشورہ طلب کریں۔ اس کے بعد بیگم کے دیے گئے مشورے کو انتہائی غور سے اس طرح سنیں، جیسے کسی دانشور کا لیکچر سنا جا رہا ہوتا ہے، یا جیسے کسی بہت ہی سیانے سے مشورہ لیا جاتا ہے، یاد رہے بیگم جب مشورہ دے رہی ہو تو اپنی دونوں آنکھیں مکمل اور پوری طرح کھول کر رکھیں اور پلکیں جھپکانے کی غلطی ہرگز نہیں کرنی، اس سے بیگم کو یقین ہو جائے گا کہ آپ اس کی بات کو واقعی میں غور سے سن رہے ہیں اور فوراً ہی اس پر عمل شروع کر دیں گے۔ پھر دوسرے اصول کو اپناتے ہوئے بیگم کی ذہانت وفطانت کی دل کھول کر تعریف کریں اور اسکے بعد بیگم کے دیے گئے مشورے کے بالکل الٹ کام شروع کردیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کا وہ مخصوص کام انشاء اللہ کامیابیوں کی نئی بلندیوں کو چھوئے گا۔
چوتھا اصول: ممتا کا احساس عورت کی سرشت کا حصہ ہوتا ہے۔ عورت میں موجود یہ احساس صرف اپنی اولاد تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ یہ کسی کے لئے بھی ہو سکتا ہے خصوصاً اگر کوئی انسان مظلوم ہو تو پھر اس احساس میں کسی حد تک شدت بھی آجاتی ہے۔ چوتھے اصول کے مطابق بیگم کے سامنے ہر وقت بچہ بنے رہا کریں، ہر وقت بچوں سی حرکیتیں کرتے رہا کریں (ان حرکتوں کی مزید وضاحت کے لئے مجھے الگ سے ای میل کی جاسکتی ہے)، تاکہ بیگم کے اندر موجود ممتا کے احساس کے آپ صحیح سے حقدار ٹھہر سکیں۔ اس اصول میں بھی خاص ٹیکنیک استعمال کرنی ضروری ہے ورنہ کبھی کبھی بچوں کی بھی ٹھیک ٹھاک پٹائی ہو جاتی ہے۔
بانچواں اصول یہ ہے کہ کبھی بھی بیگم کے کسی کام میں، یا بیگم کے کسی مشورے پر تنقید مت کریں۔ اگرزندگی کے کسی بھی مرحلے پر آپ کو محسوس ہو کہ بیگم غلط ہے تو فوراً اپنےاس احساس کو بدل دیں، کیونکہ بیگم کبھی بھی غلط نہیں ہو سکتی۔ اگر آپ نے کبھی بیگم کو غلط کہنے یا بیگم کے کسی کام پر تنقید کرنے کی غلطی کی تو بھیانک نتائج کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے۔ ایسی صورت حال میں دل کو یہ کہہ کر سمجھایا جا سکتا ہے کہ غلطی انسانی سرشت میں موجود ہے اور کوئی بھی انسان غلطی سے مبرا نہیں ہے۔ اسی لئے اگربیگم سے بھی کوئی غلطی ہوجائے تو اسکو مکمل نظر انداز کریں، کیونکہ اس کے علا وہ آپ کے پاس اور کوئی راستہ بھی نہیں ہے۔
چھٹا اصول سب سے زیادہ اہم ہے۔ اگر آپ کو یہ اصول پڑھ کر لگےکہ اس اصول میں سنجیدہ بات کی گئی ہے تو فوراً توبہ کریں کیونکہ بابا علی محمود اس اتنہائی سنگین اور حساس موضوع پر کسی طرح کا مذاق کرنے کا رسک نہیں لے سکتے۔ اس لئے میرے سارے اصول سنجیدہ نوعیت کے ہی ہیں۔ آخری اصول فطرت کے ایک سیدھے سے قانون کا عکس ہے جس پرمیں تفصیلی کالم لکھ چکا ہوں۔ قانون یہ ہے کہ آپ جس چیز کی اپنی بیگم سے امید رکھتے ہیں وہ اسکو خود دینا شروع کر دیں۔ ہماری سب سے بڑی غلطی ہمیشہ سے یہی رہی ہے کہ ہم ایسی توقعات کے مینار کھڑے کر لیتے ہیں جن تک خود بھی ہمارا کبھی جانا نہیں ہوتا۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپکی بیگم آپ سے محبت کرے تو اسکومحبت دیں، اگر آپ چاہتے ہیں کہ اپکی بیگم آپ کے گھر والوں کی عزت کرے تو آپ اسکے گھر والوں کی سچے دل سے عزت کرنا شروع کر دیں۔ غرض یہ کہ آپ جو کچھ بھی اپنی بیگم سے توقع کرتے ہیں وہ خود اسکو دینا شروع کر دیں، اس کے نتیجہ میں اپکو وہ سب مانگے بغیر مل جائے گا جس کی آپ امید لگا کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ یہ اصول میں نے اپنے کالم کو کورکرنے کے لئے لکھا ہے، امید ہے شوہر حضرات میری مجبوری کو خوب سمجھ جائیں گے۔
خبر دار: مجھے اور میرے اس چھ سنہری اصولوں والے کالم کو بیگموں کی پہنچ سے دور رکھیں، بصورت دیگربھیانگ نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔