قیامت کا لفظ اپنے ساتھ خیالات کا ایک بھونچال لے کر آتا ہے اور یہ بھونچال ذہن کے درو دیوار کو بنیادوں سے ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ ہم میں سے کسی نے قیامت دیکھی تو نہیں ہے، لیکن پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کی احادیث سے اس دن کی سختی کا، اس دن کے کرب کا اور اس دن کی لمبائی کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
اسی مناسبت سے خبروں میں اکثر قیامت صغری کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا ہے جو کہ کسی سونامی، کسی بھونچال یا کسی اور بڑی قدرتی آفت کو ظاہر کرتا ہے۔ ان قدرتی آفات کے نتیجے میں آنے والی تباہی، آنے والی بربادی کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ان آفات کے لئے قیامت صغری کا لفظ قدرے موزوں ہے۔ قدرتی آفات کے نتیجے میں اجتماعی قیامت صغری آتی ہے جس میں لاکھوں کی تعداد میں خاندان متاثر ہوتے ہیں، لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کے چراغ بجھ جاتے ہیں، لاکھوں لوگ ساری زندگی کے لئے معذور ہو جاتے ہیں۔
اس کے برعکس کچھ پریشانیاں، کچھ دکھ، کچھ تکالیف، کچھ آنسو ایسے بھی ہوتے ہیں جو کہ انفرادی طور پر ہماری زندگیوں میں وقتاً فوقتاً آتے رہتے ہیں۔ ان تکالیف کو، ان دکھوں کو بھی ہم قیامت صغری کے حصہ میں ڈال سکتے ہیں، کیونکہ ان کو برادشت کرنے والے کی حالت بھی قدرتی آفات سہنے والوں جیسی ہی ہوتی ہے۔ اسی کے ساتھ ایک دکھ یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ کا کوئی بہت پیارا دکھ میں ہے، آپ کاکوئی بہت پیارا تکلیف میں ہے، یا آپ کا کوئی بہت پیارا پریشانی میں ہے اور آپ سوائے اس کے بہتے آنسو دیکھنے کے کچھ بھی نہیں کر سکتے۔
زندگی کے اپنے ہی کچھ رنگ ہو اکرتے ہیں، اپنے ہی کچھ اصول ہوا کرتے ہیں جن کو بہرحال ہمیں قبول کرنا ہوتا ہے۔ یہ بھی زندگی کی ایک بہت بڑی حقیقت ہے کہ ہم سماجی طور پر کچھ رشتوں میں جکڑے ہوئے ہوتے ہیں اور ان رشتوں کی ہماری زندگیوں میں جذباتی طور پر، نفسیاتی طور پر بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے اور اسی اہمیت کی وجہ سے ان رشتوں سے جڑی تکلیفیں، ان رشتوں سے جڑے دکھ، ان رشتوں سے جڑی پریشانیاں ہمیں بھی اسی شدت کے ساتھ محسوس ہوتی ہیں۔ ان سے جڑے دکھوں کی تپش کو ہم اپنے وجود میں محسوس کرتے ہیں۔
المیہ یہ ہے اپنی ذا ت سے جڑی ہر تکلیف کا، ہر پریشانی کا، ہر دکھ کر کوئی نہ کوئی حل، کوئی نہ کوئی مداوا ڈھونڈ سکتے ہے لیکن ان رشتوں کی آنکھوں سے نکلتے آنسو دیکھ کر سانسیں بوجھل ہو جاتی ہیں، زندگی کا سورج اچانک سوا نیزے پر آکر شدید تکلیف میں مبتلا کر دیتاہے، ان کے آنسو دیکھ کر سینہ بھاری ہو جاتا ہےاور ہم اکثر ان پیاروں کی تکالیف کو دور کرنے کے لیے، ان کے دکھوں کے مداوے کے لئے، ان کی پریشانیوں کے ازالے کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکتے۔
ہم ان کے لئےکوئی حل نہیں ڈھونڈ سکتے، ہم اکثر ان کا مداوا نہیں کر سکتے۔ لیکن اس صورت حال میں ہمارے پاس صرف ایک حل موجود ہوتاہے، صرف ایک راستہ موجود ہوتا ہے جو کہ ہمارے کسی پیارے کی تکلیف کو کم کر سکتا ہے، ہمارے کسی پیارے کے دکھوں کا کسی حد تک مداوا کر سکتا ہے۔ وہ حل، وہ راستہ دعا کر راستہ ہے۔ اگر آپ اپنے کسی پیار ے کو تکلیف میں یا پریشانی میں دیکھیں تو تنہائی میں ہاتھ اٹھا کر اس کائنات کے رب کے سامنے درخواست پیش کریں، اپنے رب کے سامنے اپنے پیارے کی ہمت اور حوصلے میں زیادتی کی عرضی ڈالیں، اپنے اللہ سے اپنے پیاروں کےلئے زیادہ سے زیادہ دعا کریں۔
اس کے ساتھ ہی ایک خیال کو اپنے ذہن میں رکھیں جس سے کسی حد تک خود کو حوصلہ مل جاتا ہے، کسی حد تک اپنے دل کوسکون اور راحت مل جاتی ہے۔ وہ خیال یہ ہے کہ اللہ پاک کسی انسان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا، اگر انسان پر کوئی تکلیف آتی ہے یا انسان کوئی پریشانی برداشت کرتاہے تو ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالی نے اس انسان کو اتنی ہی تکلیف دی ہے، اتنا ہی دکھ دیا ہے، اس انسان کو اتنی ہی پریشانی میں مبتلا کیا ہے جتنی تکلیف، جتنا دکھ اور جتنی پریشانی یہ انسان برداشت کر سکتا ہے۔