وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ بدلتا رہتا ہے، ہماری ترجیحات، ہماری روایات، ہماری خواہشات، کروٹیں لیتی رہتی ہیں۔ اسی طرح ہماری لغت میں سے بھی بہت سارے لفظ دقت کی گرد میں اکثر گم ہوجاتے ہیں یا ہمیں خود ان لفظوں کو اپنی یاداشتوں سے مٹانا پڑتا ہے، زندگی کی گاڑی کوخوبصورتی کے ساتھ چلانے کے لئے بعض اوقات ان لفظوں سے پیچھا چھڑانا بہت زیادہ ضرور ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کے ایک لفظ کا میں آج تذکرہ کروں گا جس کو اچھی اور پرسکون زندگی کے لئے ہم نے اپنی زندگیوں سے، اپنی یاداشتوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نکالنا ہے۔
انسان اپنی زندگی کے ناتواں کندھوں پر بہت سارے بوجھ لادے پھرتا رہتا ہے۔ کبھی کبھی یہ احساسات اور جذبوں کی گٹھریاں ہوتی ہیں، کبھی کبھی انجانے خواب ہمارے وجود پر بوجھ بنے رہتے ہیں اور کبھی کبھی لمبی لمبی امیدیں ساری زندگی ہمارے دامن کے ساتھ نتھی رہتی ہیں۔ یہ تمام احساسات یہ تمام خواب اور یہ تمام امیدیں ہمیں نفساتی، جذباتی اور جسمانی طور پر ہر وقت کشمکش میں مبتلا رکھتی ہیں۔ جذبوں او ر خوابوں ہی کی طرح امیدوں اور توقعات کا بوجھ بھی اکثر بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔ ہم توقعات کی ایسی سیڑھیاں چڑھتے رہتے ہیں جن کے اختتام پر صرف اور صرف مایوسی ہمارے قدم چومتی ہے، جن کے اختتام پر صرف اور صرف احساسات اور جذبوں کا خون ہی ملتا ہے، جن کے اختتام پر دل کےٹوٹنے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ دنیا کا ہر رشتہ ناراضی کی بنا پر اپنی موت مرتا ہے اور ناراضی امیدوں کی کوکھ سے جنم لینے والے جذبے کا نام ہے، آسان لفظوں میں کہا جائے تو ہم کسی بھی رشتے کو اگرغیر طبعی موت مارتے ہیں یا اگر کوئی بھی رشتہ غیر طبعی موت مرتا ہے تو اسکا براہ راست تعلق کسی نہ کسی طرح سے ہماری اس رشتے سے جڑی ہوئی امیدوں سے ضرور ہوتا ہے۔ ہم ساری زندگی توقعا ت کی سیڑھیاں چڑھتے رہتے ہیں اگر ایک رشتہ ہمیں ان سیڑھیوں سے نیچے گراتا ہے تو ہم آنکھیں کھولنے کی بجائے کسی اور رشتے کا دامن تھام کر ایک بار پھر توقعا ت کی سیڑھیوں کی طرف اپنا سفر شروع کر دیتے ہیں اور اسی غلام گردش میں خود بھی ٹوٹتے رہتے ہیں اور اپنے اردگرد موجود رشتوں کابھی گلا دباتے رہتے ہیں۔
اگر آپ زندگی میں خوشی چاہتے ہیں تو اپنی زندگی سے اس لفظ "امید" کو نکال دیں، زندگی میں کسی سے کسی بھی طرح کی کوئی امید مت لگائیں، کبھی بھی توقعات کی سیڑھیوں پر قد م نہ رکھیں، چاہے آپ کے سگے رشتے ہوں، چاہے آپ کی اولاد ہو، چاہے آپ کے دوست ہوں یا چاہے کوئی بھی ہو۔ کیونکہ توقعا ت کی سیڑھیوں سے گرکر اٹھنا بڑا مشکل ہوجاتا ہے۔ توقعا ت کی سیڑھیوں سے گرا ہو ا انسان رشتوں کے ساتھ ساتھ خود بھی نفسیاتی طور پر بہت بری طرح سے ٹوٹ جاتا ہے۔ ہمارے والدین بچے کی پیدائش سے ہی ان سے کئی طرح کی امیدیں باندھ لیتے ہیں، خاوند خود کو حاکم سمجھتے ہوئے اپنی بیویوں سے درجنوں امیدیں لگا لیتے ہیں، دوست دوستوں کو آنے والے مشکل وقت میں گھنی چھاوں تصور کرتے رہتے ہیں اس صورت حال میں ہمیشہ ایک بات کو اپنے ذہن میں رکھیں کہ یہ چھ فٹ کا انسان کسی کو کچھ بھی نہیں دے سکتا، زندگی میں خود ہمیشہ کوشش کریں کہ لوگوں کی توقعات اور لوگوں کی امیدوں پر پورا اتریں لیکن اس عمل کے دوران کبھی بھی عمداً یا سہواً کسی طرح کی امیدوں کو کسی بھی رشتہ کے حوالے سے اپنے وجود میں جنم مت لینے دیں، کبھی بھی کسی سے کسی طرح کی کوئی امید مت لگائیں آپ کبھی کسی سے ناراض نہیں ہوں گے، آپ کبھی رشتوں کا خون نہیں کریں گے، آپ کبھی ان لوگوں کو بھی دکھی نہیں کریں گے جو ہمیشہ آپکی جھولی میں دکھ ڈالتے رہتے ہیں اور ساتھ ہی آپ خود بھی نفسیاتی، جسمانی اور جذباتی ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں ہوں گے۔ ہر انسان اپنی اپنی مجبوریوں کی چکی میں پس رہا ہوتا ہے، کچھ انسان اپنی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہو کر دوسروں کی امیدوں کو پاوں تلے روندتے رہتے ہیں اور کچھ اپنی انا کی تسکین کے لئے یہ عمل کرتے ہیں اور بہت سارے یہ کام انجانے میں کر رہے ہوتے ہیں لیکن ان سب کو اس بات کا قطعاً احساس نہیں ہوتا کہ ان کے اس عمل سے کسی کی زندگی پر کسی کے جذبوں پر کس طرح کے اثرات مرتب ہوں گے۔ اسی لئے آج سے ہی ٖفیصلہ کریں کہ اس لفظ" امید" کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنی زندگیوں سے نکال دیں گے اور پھر کبھی نہیں سوچیں گے کہ اس لفظ کا اس دنیا میں کوئی وجود بھی تھا، یقین جانئے یہ کام تھورا مشکل ہے لیکن آپ کی اور آپ کے اردگرد لوگوں کی زندگیوں میں سکون لے آئے گا۔