1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی محمود/
  4. اس دن زندگی نے سکھایا

اس دن زندگی نے سکھایا

اس دن دل بہت اداس تھا۔ زندگی کے کچھ لمحے، زندگی کے کچھ دن، زندگی کی کچھ گھڑیاں بنا کسی وجہ کےبس یونہی بہت زیادہ بوجھل ہو جایا کرتی ہیں۔ اس اداسی کی نہ تو کوئی خاص وجہ ہوتی ہے اور نہ ہی اس کے پیچھے کوئی حادثہ پنہاں ہوتا ہےلیکن اچانک زندگی بے رونق سی ہو جاتی ہے۔ میرے ساتھ بھی اس دن یہی ہوا تھا، کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا، سب کچھ بے رنگ سا ہو گیا تھا۔ اچانک زندگی کے سارے رنگ ماند پڑ گئے تھے۔ زندگی کے آسمان کو مایوسی کے سیاہ بادلوں نے ڈھانپ کرہر طرف اندھیراکر دیا تھا۔ عموماًاس صورت حال میں انسان ہمدرد اور مخلص کندھوں کی تلا ش شروع کر دیتا ہے، ایسے کندھےجو کوئی نصیحت نہ کریں، ایسے کندھے جو ہماری اداسی کے بوجھ کو کچھ وقت کے لئے اپنے اوپر اٹھا کر ہمیں ہلکا کر دیں، ایسے کندھے جو ہمارے تلخ رویوں کو بھی کچھ دیر کے لئے اپنے اندر جذب کر لیں، ایسے کندھے جن پر سر رکھ کر ہم کچھ آنسو بہا لیں۔ میں نے بھی ایسا ہی سوچا اور اپنے اردگرد موجود کندھوں کے بارے میں تجزیہ کرتے ہوئے ایک مخلص کندھے کی طرف چلا پڑا۔ میں اس کندھے کو اپنے لئے اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت سمجھا کرتا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ اگر مجھ پر کوئی بھی مشکل ان پڑی، یاکوئی بھی بوجھ میری طاقت سے زیادہ ہو گیا تو یہ کندھا ہروقت میرے ساتھ ہوگا، یہ کندھا ہر وقت میرے بوجھ کوبانٹنے کے لئے تیار ہو گا، یہ کندھا میری ایک پکار پر لبیک کہتا میری طرف لپکے گا۔ لیکن میں جب اس کندھے کے پاس پہنچا تو وہاں معاملہ میری امیدوں کے برعکس تھا۔ میرا بوجھ اٹھانا تو کجا اس نےاپنا بوجھ بھی میرے ناتواں کندھوں پر ڈال دیا اور میں مزید بوجھل قدموں کے ساتھ انجانی منزل کی طرف چل پڑا۔ پھر مجھے کچھ اور کندھوں کا خیال آیا، جن سے بھی بارحال میری کچھ امید یں وابستہ تھیں۔ لیکن دو مزید کندھوں کے پاس جانے سے مجھے اندازہ ہوا کہ میرا بوجھ کم ہونے کی بجائے بڑھ رہا ہے۔ کیونکہ وہ کندھے میرا بوجھ اٹھانے کی بجائے اپنا بوجھ بھی میرے اوپر لاد دیتے تھے۔ مزید بوجھ اٹھانے کی ہمت نہیں تھی اس لئے میں خاموشی سے واپس آگیا۔ کچھ دیر یونہی بیٹھا رہا تو ایک دو اور کندھوں کا خیال آیا، میں ان کی تلاش میں نکلنے لگا تو انجانی طاقت نے قدموں کو جکڑ لیا، میں واپس آگیا اور اپنے کندھوں سےاداسی کی ٹوکری اٹھا کر اپنے اور دوسروں کے سارے دکھوں کو اپنے سامنے انڈیل دیا اور سارا دن بے چینی اور اداسی میں گزار دیا۔ لیکن اس دن زندگی نے کچھ بہت اہم سبق سکھائے۔

اس دن زندگی نے سکھایا کہ اگر آپ اچھے اداکار نہیں ہیں اور اپنی اداسیوں کو، اپنے دکھوں کو چھپا نہیں سکتے تو آپ کے بہت قریبی لوگ بھی آپ سے دور ہو جاتے ہیں۔ اس دن زندگی نے سکھایا کہ اپنا بوجھل سر اپنے کندھے پر رکھنا سیکھ لینا چاہیے، اس دنیا میں کوئی بھی آپ کو بوجھل سر رکھنے کے لئے اپنا کندھانہیں دیتا۔ اس دن زندگی نے سکھایا کہ انسان کس حد تک خودغرضی اور انا پرستی کی دلدل میں دھنسا ہوا ہوتاہے۔ اس دن زندگی نے سکھایا کہ اپنےآنسووں کو خود ہی صاف کرنا ہوتا ہے، کوئی ہمارے آنسو صاف نہیں کرتا، آنسو صاف کرنا تو کجا کوئی ہمارے آنسو دیکھ کراپنا رومال بھی پیش نہیں کرتا۔ اس دن زندگی نےسکھایا کہ ہر کوئی اپنی ذات کے گرد طواف کرتا رہتا ہے، کسی کے پاس اتنی فرصت نہیں کہ وہ کچھ دیر کے لئے ذات کا طواف روک کر کسی اورکی طرف دیکھ سکے۔ اس دن زندگی نے سکھایا اگر اپنی اداسی چھپا نہیں سکو گے تو لوگ پتوں کی طرح زندگی کے درخت سے جھڑنا شر وع ہو جائیں گے۔ اس دن زندگی نے سکھایا کہ تیز بارش میں کوئی اپنا چھاتاآپ کے ساتھ نہیں بانٹتا۔ اس دن زندگی نے سکھایا کہ کوئی اپنے لبوں سے لگے پانی کو کسی کے لبوں کے حوالے نہیں کرتا۔ اس دن زندگی نے سکھایا کہ تپتی دھوپ میں کوئی سایہ دیوار نہیں بنتا، موسم کی سختیوں کو خود ہی سہنا پڑتا ہے۔ اس دن زندگی نے سکھایا کہ ہر کسی کو اپنا دکھ اور اپنا درد بڑا اور تکلیف دہ محسوس ہوتاہے۔ اس دن زندگی نے سکھایا کسی کی زندگی میں خود کے سوا کسی کی اہمیت نہیں ہوتی۔ اس دن زندگی نے سکھایا کہ اس زندگی کا حقیقی چہرہ کتنا خوفنا ک اور ڈراونا ہے۔ اس دن زندگی سے زیادہ زندگی سے خوف آیا۔