لگتا ہے ہم پاکستانی عوام نے جہاں پہنچنا تھا پہنچ گئے ہیں بلکہ یوں کہیں کہ کچھ ہم نے خود کوشش کی اور باقی رہی سہی کسر پوری کرکے ہمیں وہاں تک پہنچا دیاگیا۔ جہاں صرف رونا پیٹنا ہی باقی بچا ہے وطن عزیز پاکستان میں اس سے پہلے بھی غریب مشکل سے زندگی گزاررہاتھا اب تو ارباب اختیار نے شاید یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ کیوں نا بھیڑ بکریوں کے اس ریوڑ کو بھوک دے کر مارا جائے۔
میں معذرت خواہ ہوں کہ لفظ بھوک کا استعمال کیا ہے وگرنہ ان کی کیا اوقات ہے بے شک رزق دینے اللہ ہے لیکن اللہ نے یہ دنیا بناکر اسبا ب پیدا کردئیے روٹی کھانے کے لئے ہمیں محنت کرنا ہوگی تب روٹی کا حصول ممکن ہوگا۔ بیٹھے بٹھائے کھانا نہیں ملے گا حرکت میں برکت ہے لیکن ہائے ظالموں نے غریب کو کہاں لاکھڑا کردیا ہے۔
میں تو کہتا ہوں ان بدبختوں کو اقتدار کی کرسی چھوڑ کر جنگل کی راہ لینی چاہئیے مجذوب بن جانا چاہئیے اور اس رب کائنات سے توبہ کرنی چاہئیے گڑگڑا کر معافی مانگی جائے کہ یااللہ تو نے ہی یہ منصب عطا کیا لیکن نجانے ہمیں کیا ہوگیا ہم طاقت کے نشے میں سب بھول گئے اور تیری مخلوق کے دکھوں میں ایسا اضافہ کر دیا کہ لوگ مرنے کو آگئے ہیں نفسیاتی مریض بن گئے ہیں جنگل میں نہیں جاسکتے تو خدارا اپنے لئے موت ہی مانگ لیں اٹھ جائیں اس دنیا سے اس دھرتی پر بوجھ نہ بنیں آج غریب کیسے جی رہا ہے اپنی رنگین دنیا سے باہر نکل کر دیکھیں کیا حشرکردیا ہے تمھارے ہوس اقتدار نے یہ معاشی بدحالی کیا رنگ دکھلائے گی لاوا پک چکاہے زیادہ دیر نہیں لگے گی یہ لاوا پھٹنے کو ہے اور سب سے پہلے تمھارے ہی محل نیست ونابود ہونگے۔
عام آدمی کو جب جینے کے قابل ہی نہیں چھوڑا تو وہ کیا خاک جئیے گا آج ہر غریب شخص پریشانی کے عالم میں پوچھتا ہے کہ ہمارے ملک کا کیا ہوگا۔ آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے بجلی کی آئے روز بڑھتی قیمتیں شیطان کی آنت بن گئی ہیں بیس پچیس ہزار کمانے والا ایک غریب آدمی پچیس تیس ہزار بجلی کا بل کیسے ادا کرے گا کیا جینے کے لئے صرف بجلی کا بل ہی ادا کرنا ہے دیگر ضروریات زندگی کہاں سے اور کیسے پوری کی جائیں گی۔
عام آدمی بچوں کو کھانا کہاں سے کھلائے گا ان کی تعلیم کا کیا ہوگا وہ کیسے تعلیم حاصل کرسکیں گے عام آدمی کے لئے یہ سب بہت مشکل ہوچکا ہے یہ کوئی افسانہ نہیں ہے یہ وہ حقیقتیں ہیں جن سے آپ اہل اقتدار نظریں چرا رہے ہیں لیکن حقیقت کو کیسے جھٹلایا جا سکتا ہے لگتا ہے اقتدار کی بدمست کرسی اور ناجائز دولت کے ڈھیر نے اہل اقتدار کو اندھا کردیا ہے کہیں ایسا تو نہیں سوچا جا رہا ہے کہ غریبوں کو سرے سے ہی ختم کردیا جائے خدا کے لئے بس کردیں یہ سب۔۔
اتنی دولت اکٹھی کرکے کہاں لے جائیں گے قبر کے گڑھے میں اتنی جگہ کہاں ہوتی ہے جینے دیں اس لاچار قوم کو اپنے ماضی کی تاریخ کو دیکھ لیں بڑے بڑے طاقتور کیسے عبرت کا نشان بن گئے تاریخ بڑی بے رحم ہوتی ہے یہ کسی کو معاف نہیں کرتی آنے والی نسلوں کے لئے اپنی تاریخ کے کرداروں میں فرعون نہ بنیں کچھ خدا کا خوف کریں اور اس بے بس غریب عوام کو سکھ کا سانس لینے دیں بھوک کو اس حد تک نہ پھیلائیں کیونکہ بھوک کا کوئی مذہب نہیں ہوتا بھوک تباہی کا بدترین ہتھیار ہے۔
سماجی انصاف کا پہلا اور ضروری جز بھوک کو ختم کرنا ہوتا ہے بھوک کے سامنے تو ہرچیز کانپتی ہے حتی کہ موت بھی۔ تمام دکھ تمام اذیتیں بھوک سے جنم لیتی ہیں الحمداللہ ہم ایک ایٹمی طاقت ہیں، لیکن بدقسمتی دیکھیں ہرطرف بھوک کا راج قائم ہورہا ہے۔
خدارا اپنی غریب عوام کو اس اذیت ناک مہنگائی اور بجلی کے ناجائز بلوں سے نجات دلوائیں اور وطن عزیز کو محفوظ بنائیں۔