گو کہ انسان کو اللہ کریم نے بہترین مخلوق بنا کر اس دنیا میں بھیجا، اسے اپنے فیصلوں میں خودمختار بنایا۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ انسان کا لیا گیا ہر فیصلہ درست ہی ہو۔ اکثر اوقات انسان غلط فیصلہ بھی لیتا ہے۔ درست فیصلے کے نتائج اچھے اور غلط فیصلے کے نتائج مناسب نہیں ہوتے۔ درست فیصلے کا انجام ترقی، خوشحالی اور پائداری پہ منتج ہوتا ہے، جبکہ غلط فیصلے کا انجام تنزلی، بدحالی اور ناپائداری پہ انجام پزیر ہوتا ہے۔ فیصلہ اگر انفرادی ہو تو اس کے نتائج محدود ہوتے ہیں۔
غلط فیصلہ اگر ادارے لیں تو خمیازہ بھگتنے والوں کی تعداد میں خاطرخواہ اضافہ ہوجاتا ہے اور متاثرین کی تعداد انفرادی سطح سے بلند ہو کر کئی گھرانوں پہ محیط ہو جاتی ہے۔ اور اگر یہی غلط فیصلہ کوئی حکومت لے تو اس کے اثرات سارے ملک کے باشندوں کو بھگتنے پرتے ہیں۔ بعض اوقات حکومتی غلط فیصلوں کی بدولت نسلوں کو خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ بقول شاعر
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
اللہ کریم نے انسان کو سیکھنے کی نعمت سے نوازا ہے۔ انسان اپنے تجربوں سے سیکھتا ہے۔ کسی کو دیکھ کر سیکھتا ہے اور جو انسان نہ سیکھنا چاہے اس زمانے کی گردش ایسا سکھاتی ہے کہ کیا ہی کہنے۔ بہتر تو یہی ہے کہ ہم دوسروں کی غلطیوں کو دیکھتے ہوئے خود ہی درست راہ اور فیصلوں کا تعین کریں کہ اسی میں فلاح پوشیدہ ہے۔ لیکن اگر ضد میں آکر غلط فیصلے لئے جائیں تو تباہی سے کوئی نہیں روک سکتا۔ کہ آبیل مجھے مار کا انجام سوائے درد، زخم اور دکھ کے سوا کچھ نہیں۔
موجودہ حکومت نے گزشتہ روز ایک فیصلہ لیا کہ پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے سربراہ ڈاکٹر عمر سیف کو انکے عہدے سے ہٹا دیا جائے۔ گو یہ فیصلہ بالعموم کسی کے لئے لائق توجہ نہ ہو، لیکن جو افراد انکے شعبے سے وابستہ ہیں وہ اس امر کی گواہی دیں گے کہ یہ کتنا غلط فیصلہ ہے۔
ڈاکٹر عمر سیف کون ہیں؟ ڈاکٹر عمر سیف کو انکی خدمات کے نتیجے میں حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز سے نوازا، پاکستان کی پہلی آئی ٹی یونیورسٹی کے وائس چانسلر، پلان 9 اور پلان 10 کے خالق، کیمبرج یونیورسٹی سے 22 سال کی عمرمیں ڈاکٹریٹ کرنے والے، ورلڈ اکنامک فورم کی جانب سے ینگ گلوبل لیڈر نامزد ہونے والے، ای خدمت سینٹرز کی بنیاد رکھنے والے، ایک استاد اور ای روزگار پروگرام کا آغاز کرنے والے۔ ایسے افراد ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔
افسوس بہ حیثیت قوم ہم اپنے قوم کے ہیروں کی ناقدری کرنے والے ہیں۔ جو افراد اس قوم کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں، ہم نے انہیں ذلیل و رسوا ہی کیا۔ لیکن کیا کہنے ان ہیروں کے خود کو مٹا کے صرف اپنا ملک یاد رہا۔
ہماری ڈاکٹر عمر سیف سے کبھی زندگی میں ملاقات نہیں ہوئی، لیکن انہوں نے کام ایسے کیے ہیں کہ ہم انکے گرویدہ ہیں۔ ہم سو پیاز اور سو جوتے کھا کے خوش ہونے والے، کہاں اس بات کے لائق ہیں کہ ای خدمت سینٹرز میں، گرمیوں کے موسم میں، ٹھنڈے ماحول میں، سرکاری کام کروائیں۔ بجا کہ افراد اہم نہیں ہوتے، ادارے اہم ہوتے ہیں۔ لیکن یہ بھی درست کہ افراد ہی اداروں کو بناتے اور سنوارتے ہیں۔
ہم حکومت وقت سے التجا کرتے ہیں کہ اپنے اس فیصلے پہ نظر ثانی کریں اور ممکن ہو تو ڈاکٹر صاحب کی خدمات کے لئے دوبارہ ان سے درخواست کی جائے۔
ہم ڈاکٹر عمر سیف کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے ہم جیسی قوم کی خدمت کی، ہم انکے بہترین مستقبل کے لئے دعا گو ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی دعا کرتے ہیں کہ وہ جس مقام پر ادارے چھوڑ کر گئے ہیں یہ ادارے اس سے بڑھ کر کام کریں۔