میں نے پہلی بار اسکو پانچ سال پہلے گرلزکالج کے باہر دیکھا تھا۔ ان دنوں چھٹی کے فوراً بعد ہم سب دوست گرلز کالج کے باقائدگی سے چکر لگایا کرتے تھے۔ اتنی ساری لڑکیوں میں، اتنے ہجوم میں بھی نظریں اسی پر رکی ہوئیں تھیں۔ کچھ لوگوں میں منفرد رہنے کی بڑی خاصیت ہوتی ہے اور یہ منفرد لوگ اچھے حوالوں سے بھی منفرد ہو سکتے ہیں اور برے حوالوں سے بھی منفرد ہو سکتے ہیں۔ جس طرح سفید قمیض پر کالا داغ ہوتا ہے یا کالی قمیض پر سفید داغ، قمیض پر نظر پڑتے ہی نظریں سب سے پہلے اس داغ پر جاتی ہیں۔ اسی طرح ہزاروں کی بھیڑ میں بھی نظریں کچھ چہروں پر جا کر رک جاتی ہیں۔ ان کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے دنیا رک گئی ہے، جیسے سانسیں رک گئیں ہیں، جیسے اردگرد کے سارے مناظر تھم گئے ہیں۔ میری نظریں بھی اس دن اس پر ایسے ہی رک گئیں تھیں، میری نظروں نے آگے کے سفر پر جانے سے انکار کر دیا تھا۔ اس دن مجھے اندازہ ہوا کہ دل اور دماغ کی طرح آنکھیں بھی ہم پر اپنی مرضی مسلط کر سکتی ہیں۔ یہ کسی پر بھی رک کر ہمیں" کٹ" پڑوا سکتی ہیں یا دوسری صورت میں کسی کو بھی آسانی سے نظر انداز کر سکتی ہیں۔ مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ میں اسکو کتنی دیر تک دیکھتا رہا لیکن یہ محسوس ہوتا تھا جیسے میں زماں و مقاں کی قید سے آزاد ہو گیاتھا۔ اسکے چہرے پر بچوں کی سی معصومیت تھی۔ جیسے بچوں کو دیکھ کر بلا اختیار پیار آنے لگتا ہے۔ میں کچھ دیر وہاں کھڑا اسکو دیکھتا رہا۔ تھوری دیر بعد اس کی گاڑی اسکو لینے آگئی میں نے اسکی گاڑی کا پیچھا کرنے کی کوشش کی لیکن شرمندگی کے احساس نے زیادہ دور تک نہیں جانے دیا۔ کچھ دنوں بعد میرے فائنل امتحان تھے۔ لیکن اس دن گھر آنے کے بعد میری عجیب سی کیفیت رہی۔ کھانے کو جی نہیں چاہ رہا تھا اور کورس کی کتابوں کو دیکھ کر بیزاری کا احساس پیدا ہونے لگا تھا۔ میں ان دنوں اپنی کلاس کا اچھا طالب علم ہوتا تھا، میرے اساتذہ کو ان امتحانوں میں مجھ سے بہت سی امیدیں تھیں۔ اساتذہ کے ساتھ ساتھ میرے والدین کے بھی بہت سارے خواب مجھ سے شروع ہو کر مجھ پر ہی ختم ہوتے تھے۔ لیکن ان تمام احساسات سے زیادہ مجھے اس لڑکی کے بارے میں سوچنے کے احساس میں لذت محسوس ہو رہی تھی۔ میں رات بہت دیر سے سویا۔ اگلے دن سکول جانے کی بجائے میں اس کے کالج کے باہر کھڑا اسکا انتظارکرتا رہا لیکن وہ نہیں آئی یا اگر وہ آئی بھی تھی تو مجھے نظر نہیں ائی۔ میں انتہائی مایوسی کے عالم میں گھر واپس آگیا۔ سارا وقت بہت بیزاری میں گزرا۔ اگلے دن بھی میں سکول نہیں گیا اسکا انتظار کرتا رہا۔ یہ سلسلہ کافی دن چلتا رہا۔ میرے امتحانوں میں ایک دن باقی تھا لیکن میں پڑھنے کی بجائے اسکے کالج کے چکر لگانے میں مصروف تھا۔ ناجانے کیوں اس دن کے بعد وہ مجھے کبھی نظر نہیں آئی۔ شروع کے دو تین دن یہ احساس سانسیں روک دیتا تھا کہ اگر میں اسکو کبھی بھی نہ دیکھ پایا تو کیا ہو گا؟ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس احساس میں بھی حقیقت کے رنگ نظر آنے لگے، حقیقت کے ایسے رنگ جن کو دیکھ کر میں نے فوراً انکو دل کی گہرائیوں سے قبول کر لیا۔ میں امتحانوں میں بری طرح فیل ہوگیا۔ درحقیقت دونوں امتحانوں میں بری طرح فیل ہوگیاتھا۔ دونوں راستے ہی بند گلی میں نکلتے تھے۔ میں نے ایک انجانے احساس کی خاطر، انجانے چہرے کی انجانی محبت کی خاطر اپنا راستہ چھوڑ دیاتھا، اپنی منزل کو بھول بیٹھاتھا۔
میں نے زندگی کے بہت سارے مراحل پر اپنی زندگی کے اس موڑ پر غور کیا، اپنی زندگی کے اس موڑ کے بارے میں سوچا، لیکن مجھے اس کا مقصد سمجھ نہیں آیا۔ مجھے آج تک نہیں پتہ چل سکا کہ وہ لمحہ میری زندگی میں کیوں آیا؟۔ کیوں انسان اپنے نقصان کو اپنی نگاہوں کے سامنے دیکھتے ہوئے اسکو خوشی خوشی گلے لگا لیتا ہے؟ کیوں انسان سراب کے پیچھے بھاگتے بھاگتے زندگی کی شام میں پہنچ جاتا ہے؟ کیوں انسان انجانے راستوں اور انجانی منزلوں کی طرف بے اختیار کھینچا چلا جاتا ہے؟ یہ وہ سوال ہیں جس کا جواب میں آج تک تلاش نہیں کر سکا۔ میں آج تک ان سوالوں میں پوشیدہ حکمت تک نہیں پہنچ سکا۔ آپ لوگ تھوڑا وقت نکال کر اپنی زندگی پر سرسری سی نظر ڈالیں اور سوچیں کہ کیا آپ بھی کسی ادھوری کہانی میں پھنس کر اپنی منزل سے دور تو نہیں ہو رہے؟ آپ بھی کہیں ادھور ی کہانیوں کی وجہ سے مکمل رشتوں کو ادھورا تو نہیں کر رہے؟ خود سے ان سوالوں کے جواب ضرور لیجئے گا۔