وہ جب پیدا ہوا تو پیدائشی طور پر دونوں ہاتھوں اور دونوں ٹانگوں سے محروم تھا۔ اسکا جسم دونوں بازو اور دونوں ٹانگوں کے بغیر محض چند فٹ کا تھا۔ وہ آج بھی ایسا ہی ہے وہ ایسا کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب وہ کافی دیر تک تلا ش کرتا رہا۔ لیکن بہت سے وا قعے اور بہت سے حادثے اس دنیا میں ایسے ہوتے ہیں جن کی کوئی سائنسی وجہ یا کوئی سائنسی دلیل نہیں ہوتی۔ وہ اکثر اپنے ڈاکٹر سے پوچھا کرتا تھا کہ ایسا میرے ساتھ ہی کیوں ہوا اتنے لوگ دنیا میں ہر روز پیدا ہوتے ہیں سب مکمل پیدا ہو کر مکمل زندگی گزارتے ہیں پھر میں ادھورا کیوں پیدا ہوا؟ ڈاکٹر اس کی بات سن کر گہری خاموشی کے صحرا میں گم ہو جاتا کیونکہ اس کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہوتا تھا۔ اس نے کئی مرتبہ خود کشی کی کوشش بھی کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ وہ کہتا ہے کہ آپ ہمیشہ بڑے خواب دیکھو اور پھر اس کی تکمیل کے راستے پر چلتے رہو اور کبھی بھی اپنا راستہ مت چھوڑو چاہے حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں۔ اسنے بھی ایک خواب دیکھا اور اسکی تکمیل کے لئے بہت محنت کی اور پھر اسکی زندگی بدل گئی۔ وہ آج ایک انتہائی کامیاب موٹیویشنل سپکیر Motivational Speaker ہے۔ زندگی کے انتہائی اہم موضوعات پر لیکچر دیتا ہے۔ اس کا نام نک ویجیک Nick Vujicic ہے۔ وہ ہمیشہ ایک میز پر کھڑا ہو کر لیکچر دیتا ہے اور لیکچر کے دوران وہ میز کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک چکر لگاتا رہتا ہے۔ کچھ دن پہلے میں نے اسکا ایک لیکچر سنا تھا۔ اس نے معاشرے کے ایک بہت اہم مسئلے کی طرف لوگوں کی توجہ دلائی۔ وہ میز کے درمیان میں کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا “ہم زندگی میں اس جگہ کھڑے ہوتے ہیں جہاں ہم محفوظ ہوتے ہیں۔ لیکن ہماری کسی کمزوری، کسی محرومی یا کسی معذوری کہ وجہ سے لوگ ہمارا مذاق اڑاتے ہیں۔ ایک ادھورا انسان پہلے سے ہی ٹوٹا ہوتا ہے”۔ نک آہستہ آہستہ میز کے کنارے کی طرف بڑھنے لگتا ہے اور کہتا ہے” جیسے ہی لوگ اسکا مذاق اڑانے لگتے ہیں وہ مایوسی کے گہرے سیاہ پاتال کی طرف بڑھنے لگتا ہے”۔ نک چلتے چلتے میز کے کنارے پر پہنچ جاتا ہے وہ میز کے کنارے پر ایسے کھڑا ہوتا ہے کہ جیسے معمولی سی ہوا بھی اسکو میز سے نیچے گرا دے گی۔ وہ کہتا ہے “ یہ دنیا والے اس ادھورے انسان کو اس جگہ پہنچا دیتے ہیں جہاں طعنے کا ایک جملہ یا معمولی سامذاق اسکو نیچے گرانے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ یا ہمت، حوصلے اور تعریف کا ایک جلمہ اسکو واپس زندگی کی طرف لا سکتا ہے “یہ کہتے ہوئی نک واپس میز کے درمیان میں آجاتا ہے۔ اور تمام سامعین سے کہتا ہے” آپ نے زندگی میں کتنے لوگوں کو مایوسی کی طرف دھکیلا ہے یا کتنے لوگوں کو زندگی کی طرف واپس بلایا ہے؟” یہ کہ کر وہ خاموش ہو گیا لیکن بہت سے لوگوں کے ضمیروں کو بولنے پر مجبور کر دیا۔
میں جب پہلی بار اسلام آباد کی فیصل مسجد گیا تھا تو مجھے میرے ایک دوست نے بتایا تھا کہ مسجد کی عمارت اس طرح بنائی گئی ہے کہ یہ زلزلے کے بڑے سے بڑے جھٹکے کو بھی اپنے اندر جزب کر سکتی ہے۔ اس وقت میرے دل میں ایک عجیب سا خیال پیدا ہوا میں سوچنے لگا کہ کاش کوئی ایسا مواد بھی تیار ہو جائے کہ اسکی وجہ سے انسان بڑے سے بڑا جھٹکا، بڑے سے بڑی تکلیف کو اپنے اندر جزب کر سکے اور اسکو کوئی فرق نہ بڑے نہ ظاہری طور پر نہ ہی اندرونی طور پر۔ لیکن ایسا نہیں ہے کچھ لوگوں کے وجود کی عمارت بہت مضبوط ہوتی ہے وہ سب کچھ اپنے اندر جزب کر جاتے ہیں اور کچھ لوگوں کے وجود کی عمارت بڑی نازک ہوا کرتی ہے معمولی سا بھونچال ان کی زندگی میں تباہی مچا کر رکھ دیتا ہے۔ اور یہ عمارت جب گرتی ہے تو درخت کی طرح دائیں یا بائیں نہیں گرتی بلکہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی طرح اپنے وجود کی بنیادوں پر آکر گرتی ہے۔ اور اس عمارت کے شیشے کی ایک ایک کرچی وجود میں پیوست ہو کر زندگی بھر کا ناسور بن جاتی ہے۔ ہمیں ہرگز احساس نہیں ہوتا کہ ہم صرف اپنے فن اپنی ہنسی مذاق کے لئے کسی کی عمارت کو کتنانقصان پہنچا رہے ہیں، کس کو مویوسی کے پاتال کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ اپنے گریبان میں جھانکیں اور سوچیں اج تک آپ نے بلا وجہ یا کسی معقول وجہ سے کتنے لوگوں کو مایوسی کے پاتال کی طرف دھکیلا یا زندگی کی طرف واپس لئے کر آئے؟